Madarik-ut-Tanzil - Al-An'aam : 165
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖ٘ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے جَعَلَكُمْ : تمہیں بنایا خَلٰٓئِفَ : نائب الْاَرْضِ : زمین وَرَفَعَ : اور بلند کیے بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض فَوْقَ : پر۔ اوپر بَعْضٍ : بعض دَرَجٰتٍ : درجے لِّيَبْلُوَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے فِيْ : میں مَآ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب سَرِيْعُ : جلد الْعِقَابِ : سزا دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : یقیناً بخشے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے۔ تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بیشک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشے والا مہربان (بھی) ہے۔
زمین میں آمد و درجہ بندی آزمائش ہے ‘ آنے والے حساب کو آیا ہوا سمجھو : آیت 165: وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰپفَ الْاَرْضِ کیونکہ محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں اور ان کی امت آخری امت بنائی گئی کیونکہ وہ ایک دوسرے کے بعد آئیں گے یا وہ اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہونگے۔ اور اس کے مالک بنیں گے اور اس میں تصرف کریں گے۔ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ رتبہ میں اور رزق وغیرہ میں دَرَجٰتٍ یہ مفعول دوم ہے یا تقدیر عبارت یہ ہے اِلٰی دَرَجَاتٍ درجات کی طرف یا یہ مصدر کی جگہ آیا ہے گویا اس طرح کہا بلندی کے بعد بلندی لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتَکُمْ اس میں جو تمہیں جاہ و مال کی نعمت دے رکھی ہے تم کس طرح اس نعمت کا شکریہ ادا کرو گے۔ کس طرح شریف کمینے کے ساتھ اور مالدار فقیر کے ساتھ اور مالک مملوک کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ بیشک آپ کا ربّ بہت جلدی بدلہ لینے والا ہے جو اس کی نعمتوں کی ناشکری کرے۔ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ جو اس کے شکر کو ادا کرے گا عقاب کے ساتھ سرعت کی صفت لائی گئی۔ کیونکہ آنے والا ہے اس کو آیا سمجھنا چاہیئے وہ قریب ہی ہے۔ جیسا ارشاد فرمایا : وَمَآ اَمْرُ السَّاعَۃِ اِلاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ہُوَ اَقْرَبُ 1 (النحل : 77) کہ قیامت کا معاملہ تو پلک جھپک کی طرح یا اس سے بھی زیادہ قریب تر ہے۔ : نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے جس نے سورة انعام کی تین ابتدائی آیات صبح کے وقت تلاوت کیں اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستّر ہزار فرشتے مقرر کردیتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے ان کے اعمال کی مثل اعمال قیامت تک لکھے جاتے رہیں گے۔ (فتح القدیر)
Top