Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 165
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖ٘ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے جَعَلَكُمْ : تمہیں بنایا خَلٰٓئِفَ : نائب الْاَرْضِ : زمین وَرَفَعَ : اور بلند کیے بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض فَوْقَ : پر۔ اوپر بَعْضٍ : بعض دَرَجٰتٍ : درجے لِّيَبْلُوَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے فِيْ : میں مَآ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب سَرِيْعُ : جلد الْعِقَابِ : سزا دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : یقیناً بخشے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا اور ایک کے درجے دوسرے پر بلند کئے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تم کو آزمائے بیشک تیرا رب جلد پاداش عمل دینے والا بھی ہے اور وہ بخشنے والا اور مہربان بھی ہے
ارشاد فرمایا : وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ ط اِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ ز صلے وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ (الانعام : 165) (اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا اور ایک کے درجے دوسرے پر بلند کیے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تم کو آزمائے بیشک تیرا رب جلد پاداش عمل دینے والا بھی ہے اور وہ بخشنے والا اور مہربان بھی ہے) اس آیت کریمہ میں غور کرنے سے بیک وقت تین مفہوم ابھرتے ہیں جو سہ گونہ احساس کی ترجمانی کرتے ہیں۔ 1 اللہ نے اپنی قدرت کا احساس دلایا ہے کہ اے مشرکین مکہ تم اس لیے سرکشی دکھا رہے ہو کہ تمہیں اللہ کی قدرت کا صحیح ادراک نہیں حالانکہ تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ آج جہاں تم آباد ہو تم پہلی قوم نہیں ہو یقینا تم سے پہلے اور قومیں یہاں آباد رہ چکی ہیں۔ تم آج جن چیزوں پر تصرف رکھتے ہو اور جن کی ملکیت کے دعوے دار ہو وہ یقینا تم سے پہلے دوسروں کے زیر تصرف تھیں۔ تمہاری آبادیوں کا ایک ایک گوشہ اور تمہاری زمین کا ایک ایک ٹکڑا خود گواہی دے رہا ہے کہ یہاں نجانے کتنے قافلے گزر چکے اور آج تمہیں ان کا جانشین بنایا گیا ہے یعنی تم ان کی جگہ آباد کیے گئے ہو اسی طرح تم یہ بھی دیکھ رہے ہو کہ تم میں معاشی اور معاشرتی لحاظ سے سب لوگ برابر نہیں ‘ مختلف حیثیتوں میں بےپناہ تفاوت پایا جاتا ہے۔ کوئی مفلس ہے اور کوئی مالدار ‘ کوئی ذلیل اور کوئی عزت دار ‘ کوئی حاکم ہے اور کوئی محکوم اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر مالداری اور عزت اور حاکمیت خود انسان کے اختیار میں ہوتی تو کوئی بھی مفلسی ‘ ذلت اور محکومیت قبول نہ کرتا۔ تمہارا اس علاقے میں آج آباد ہونا اور تمہارے درجات کا یہ تفاوت خود اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ تم حقیقت میں اختیارات کے مالک نہیں ہو بلکہ یہ اختیار کسی اور کے قبضے میں ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کسی کو بساتا ہے اور کسی کو اکھاڑ دیتا ہے جسے چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے جسے چاہتا ہے مار دیتا ہے ‘ جس کو چاہتا ہے عزت اور دولت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے حالات کا شکار کردیتا ہے یقینا وہ اللہ کی ذات ہے جو تمام اختیارات کی مالک اور تمام قدرتوں کی حامل ہے اگر تمہیں اس کی قدرت کا یقین پیدا ہوجائے تو پھر یہ تمہارے لیے بات سمجھنا مشکل نہیں کہ تم حالت امتحان میں ہو۔ تمہیں یہاں آزمائش کے طور پر بھیجا گیا ہے اس لیے خیریت اسی میں ہے کہ اپنی حیثیت اور اپنی حالت کو سمجھو اور راہ راست کی طرف آجاؤ۔ 2 مشرکین مکہ کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ تم حرم کی سرزمین میں خدا کے خلیفہ ہو اس نے اپنی بہت ساری مملوکات اور بہت سی نعمتوں میں تمہیں اختیار دے رکھا ہے لیکن تم ان میں سے کسی کے مالک نہیں ہو ‘ ان میں سے ہر ایک چیز تمہارے پاس امانت ہے اس لیے تمہیں اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب اللہ تعالیٰ تم سے اس امانت کے بارے میں سوال کرے گا۔ اسی طرح تمہیں اس بات کا بھی احساس کرنا چاہیے کہ تم اگرچہ سارے اللہ کے خلیفہ ہو تم میں سے ایک ایک فرد اس خلافت ارضی میں شریک ہے لیکن تمہارے مراتب میں اس حد تک تفاوت ہے کہ کسی کا دائرہ اختیار محدود ہے اور کسی کا وسیع اور اسی نسبت سے تم میں سے ہر ایک اختیارات اور تصرفات بھی رکھتا ہے اس لیے جس طرح اس امانت کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا اسی طرح تم میں سے ہر ایک ان اختیارات کے بارے میں بھی مسئول بنایا گیا ہے۔ اس لیے تمہیں اصل فکر مندی یہ ہونی چاہیے کہ کل کو جب یہ جوابدہی کرنی پڑے گی تو ہم اس میں کس طرح سرخرو ہو سکیں گے۔ اس کا راستہ صرف وہی ہے جس کی طرف رسول اللہ ﷺ دعوت دے رہے ہیں۔ 3 قریش مکہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے سٹیج پر نمودار ہونے والی تم پہلی قوم نہیں ہو تم سے پہلے کتنی قومیں سٹیج پر نمودار ہوئیں پھر غائب ہوگئیں۔ یہاں تک کہ اللہ نے ان کی جگہ تم کو دی یہ خلافت خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس دنیا کے مالک نے جس باٹ اور ترازو سے ان کو تولا اسی باٹ اور اسی ترازو سے وہ تم کو بھی تولے گا اور اس کی میزان میں اگر تم پورے نہ اترے تو جس طرح اس نے دوسروں کو پھینک دیا اسی طرح تم کو بھی اٹھا پھینکے گا۔ خدا کی جو سنت دوسروں کے معاملہ میں رہی ہے کوئی وجہ نہیں کہ وہ تمہارے معاملے میں بدل جائے۔ اس لیے تم اگر اپنے آپ دشمن نہیں ہوگئے ہو تو تم اپنے گردوپیش کی قوموں کی تاریخ کو جاننے کی کوشش کرو اور اس کے آئینے میں اپنی حالت پہچانو۔ اس طرح شاید تمہیں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ تم ایک عجیب غلط فہمی کا شکار ہو تم یہ سمجھتے ہو کہ تم میں سے بہت سے لوگ چونکہ مال و دولت رکھتے ہیں ان کا کاروبار دور تک پھیلا ہوا ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے طائف میں باغات ہیں لیکن تمہارے مقابلے میں مسلمانوں میں بیشترلوگ مالی اور معاشی لحاظ سے تنگ دستی کا شکار ہیں۔ جب تم یہ تفاوت دیکھتے ہو تو تم اسے اللہ کے یہاں قبولیت کی علامت سمجھتے ہو۔ تمہارا گمان یہ ہے کہ جو شخص یہاں اچھے حالوں میں ہے وہ یقینا آخرت میں بھی بہتر حال میں ہوگا اور جس آدمی کو یہاں زندگی کے کٹھن مسائل درپیش ہیں وہ آخرت میں بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوگا۔ اس بات کو دلیل بنا کر تم اپنے آپ کو اللہ کا مقبول سمجھتے ہو اور اس طرح اپنی سرکشی میں اور زیادہ دلیر ہوجاتے ہو اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ زندگیوں میں یہ تفاوت اللہ کے یہاں قبولیت کی علامت نہیں بلکہ یہ اس کی طرف سے ایک امتحان ہے اس نے تمہیں یہ سب کچھ عطا کر کے آزمانا چاہا ہے کہ تم اس کے شکر گزار بنتے ہو یا ناشکرے۔ نیکیوں اور بدیوں کی جزا و سزا کا دن آگے آنے والا ہے یہ دنیا دارالجزا نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ قیامت کے دن جس نے بھی اپنے رب کی ناشکری کی ہوگی وہ اس ناشکری کی سزا بھگتے گا اور جنھوں نے نیکی کا راستہ اختیار کیا ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا سزاوار ہوگا اور یہ مت سمجھو کہ وہ آنے والا دن بہت دور ہے وہ جلد آکے رہے گا اور یہ بھی گمان نہ کرو کہ اس دن اربوں کھربوں مخلوق کا حساب کون لے سکے گا اور کیسے سب کو سزا دی جاسکے گی۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی قدرت بےپناہ ہے وہ جس کو سزا دینا چاہے گا اس میں اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی اور جسے وہ نوازنا چاہے گا یقینا اس کے رحم و کرم میں اس کے لیے جگہ ہوگی کیونکہ وہ سریع العقاب بھی اور غفور رحیم بھی ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سورة انعام مکمل ایک ہی دفعہ نازل ہوئی اور اس شان کے ساتھ نازل ہوئی کہ ستر ہزار فرشتے اس کے جلو میں تسبیح پڑھتے ہوئے آئے۔ بعض روایات میں حضرت علی ( رض) سے منقول ہے کہ یہ سورة جس مریض پر پڑھی جائے اللہ تعالیٰ اسے شفا عطا فرماتے ہیں۔
Top