Mafhoom-ul-Quran - Al-Muminoon : 17
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ١ۖۗ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : تحقیق ہم نے بنائے فَوْقَكُمْ : تمہارے اوپر سَبْعَ : ساتھ طَرَآئِقَ : راستے وَمَا كُنَّا : اور ہم نہیں عَنِ : سے الْخَلْقِ : خلق (پیدائش) غٰفِلِيْنَ : غافل
اور یقینا ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات آسمان بنا دیے اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں۔
اللہ کے رب ہونے کی نشانیاں تشریح : یہ آیات اللہ کی بےپناہ قدرت ناقابل فہم سائنسی حقائق سے بھری پڑی ہیں۔ جیسا کہ شروع میں فرمایا ” تمہارے اوپر سات راستے بنا دیے۔ بیشمار آیات میں سات آسمانوں کا ذکر آچکا ہے۔ سائنس دان اس کی پوری طرح وضاحت تا حال نہیں کرسکے۔ ڈاکٹر ہلوک باقی صاحب کچھ اس طرح لکھتے ہیں : ” یہاں باریکی یہ ہے کہ سات آسمانوں کو سات راستے اس لیے کہا گیا ہے تاکہ ہم سات میدانوں کو باآسانی سمجھ سکیں ‘ چناچہ قرآن میں راستوں کے ذکر کے ذریعے پیمائش ‘ جسامت ‘ آسمانی فاصلے اور لامحدود رفتاروں کو بیان کیا گیا ہے۔ “ مزید لکھتے ہیں : ” ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کوئی مادی سواری نہیں پہنچ سکتی اس کی ایک وجہ تو اس سلسلے میں رفتار کا معاملہ ہے ‘ دوسرے راستے کی مقناطیسی موجودات کو عبور نہیں کیا جاسکتا۔ ان آسمانوں تک پہنچنے کے لیے یا ان سے گزرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس رفتار سے سفر کیا جائے وہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہو۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مادہ کی دنیا سے ہی نکل جانا ہوگا۔ “ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) پھر فرمایا کہ ” ہم خلق سے بیخبر نہیں ہیں۔ 17) ( یعنی یہ وسیع و عریض ناقابل فہم کائنات کس نظام ‘ ترتیب اور حکمت و انتظام سے بنائی گئی ہے اس سے صرف اللہ کی ذات ہی واقف ہے۔ وہی جانتا ہے۔ کیسے چلانا ہے اور کیا سلسلہ ہے۔ انسان کو غوروفکر کی اجازت تو بہت دفعہ دی گئی ہے۔ بلکہ اندازاً 750 آیات ایسی ہیں کہ جن میں انسان کو کائناتی مظاہر پر غوروفکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی لیے انسان ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح قدرت کے نظام کو سمجھ سکے۔ کبھی کبھی کسی کسی معاملہ میں سوجھ بوجھ حاصل کرلیتا ہے مگر بہت سے راز ایسے ہیں کہ جن کو سمجھ لینا اس کے بس میں نہیں۔ ہمارے چاروں طرف پھیلائے ہوئے قدرت کے کرشمے انسان کو اللہ کے وجود کو ماننے کے لیے بہت کافی ہیں۔ جیسا کہ خود انسان کی تخلیق ‘ آسمانی راستوں کی تخلیق اور اب ذکر ہو رہا ہے بارش کی کیا ذمہ داری ہے جو وہ اللہ کے حکم سے انسانوں کے فائدہ کے لیے انجام دیتی ہے۔ سائنسی دنیا میں بارش عجوبے کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر ہلوک باقی صاحب اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں۔ (1) بادل ایک خاص مادی ساخت ہے جو بھاپ سے بنتا ہے لیکن فوراً ہی پانی کے باریک قطروں میں تبدیل ہوجاتا ہے اس لیے عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ فضائی بادل جمتے نہیں اور نہ ہی نقطہ انجماد سے نیچے زمین پر گرتے ہیں۔ (2) سمندر میں نمکین پانی بخارات کے عمل میں شامل ہو کر نمک کے قطرے بھاپ میں شامل بھی کردیتا ہے۔ (3) بادل کی تشکیل میں اندازاً ایک مکعب سینٹی میٹر میں پانی کے باریک قطرے ایک ارب کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ بارش کے قطرے بادل میں 50 سے 500 فی مکعب سینٹی میٹر ہوتے ہیں۔ (4) پانی کا ایک قطرہ نودی حالت (Nuclear State) بن کر صفر سے چالیس ڈگری کم کی حالت کو سہار سکتا ہے اور بارش کو ایک انتہائی پیچیدہ مساوات سے پیدا کرتا ہے۔ (5) جب قطرے زمین کے نزدیک پہنچتے ہیں تو ہوائی رگڑ کے ذریعہ اس کی رفتار میں کمی آجاتی ہے اور یوں بارش ایک حلیم طریقے سے زمین پر گرتی ہے۔ یہ متوازن طریقہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔ زمین پر پہنچتے پہنچتے بارش کے قطرے کی رفتار اتنی کم ہوجاتی ہے جیسے پیرا شوٹ کا عمل ہوتا ہے۔ “ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) کیا بارش کا یہ ریاضیاتی حساب کتاب اللہ کی بڑائی، وحدانیت، حکمت اور موجودگی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت نہیں ؟ کیوں نہیں کوئی انسان اللہ کے سوا پانی کا یہ بندوبست ہرگز نہیں کرسکتا۔ پہلے تو پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ سمندر میں نمک ملا کر محفوظ کردیا کہ پانی خراب نہ ہو۔ نمک بہت بڑا ذریعہ ہے کسی چیز کو خراب ہونے سے بچانے کا، پھر اس پانی کو مطلوبہ وقت پر مطلوبہ مقدار میں اور مطلوبہ جگہ پر ہوائوں کے ذریعہ بادلوں کی مشکوں میں بھر کر پہنچا دینا۔ پانی کی ضرورت انسان کو اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ صرف انسان کو ہی نہیں تمام مخلوقات حیوانات جمادات اور نباتات سب پانی ہی کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں۔ سبحان اللہ اس احسن الخالقین کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے اللہ اکبر۔ کون ہے جو کسی صورت بھی ذرہ برابر اس کی برابری کا سوچ بھی سکے۔ وہ اکیلا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ پھر پانی کو زمین کے اندر ‘ پہاڑوں کی قدرتی قاریزوں میں، دریائوں ‘ ندی نالوں اور جوہڑوں میں پہاڑوں کے اوپر برف کی موٹی تہوں کی صورت میں پانی کا ذخیرہ اس قدر اللہ تعالیٰ کردیتا ہے کہ انسان اس کو حاصل کرتا رہتا ہے۔ استعمال کرتا ہے اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر وہ چاہے تو پانی کے سلسلے کو بند کر دے یا تھوڑا کر دے یا زیادہ کر دے۔ یہ تینوں باتیں اس کے اختیار میں ہیں۔ اس کے بعد ایک اور فضل اللہ کا یہ ہے کہ وہ انسان کے لیے بہترین باغات پھلوں سے بھرے ہوئے اگاتا ہے خاص طور سے کھجور انگور اور زیتون کا ذکر کیا گیا ہے۔ زیتون کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کوہ طور پر بکثرت پیدا ہوتا ہے اور یہ بیشمار طریقوں سے کام میں لایا جاتا ہے، پھر چوپاؤں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں ان کی ضرورت انسان کو کس حد تک ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں۔ پھر کشتیاں اور چوپائے سواری کے کام بھی آتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے ؟ اللہ کی قدرت اس کے موجود ہونے کے اسباب ہیں۔ یہ سب تو انسانی پیدائش اور پھر اس کی جسمانی نشوونما کے لیے کیا گیا ہے اور اب ذکر ہوتا ہے انسان کی روحانی تربیت کا تو وہ رسولوں ‘ نبیوں اور پیغمبروں کے ذریعہ سے ہر زمانے میں اللہ بندوبست کرتا رہا ہے۔ اللہ نے کبھی بھی اپنے بندوں کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑا۔ پیارے نبی سیدنا محمد ﷺ کو تسلی دینے کے لیے بہت سے انبیاء کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top