Al-Quran-al-Kareem - Al-Muminoon : 17
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ١ۖۗ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : تحقیق ہم نے بنائے فَوْقَكُمْ : تمہارے اوپر سَبْعَ : ساتھ طَرَآئِقَ : راستے وَمَا كُنَّا : اور ہم نہیں عَنِ : سے الْخَلْقِ : خلق (پیدائش) غٰفِلِيْنَ : غافل
اور بلاشبہ یقینا ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے اور ہم کبھی مخلوق سے غافل نہیں۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ : اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر انسان کی اپنی پیدائش کا ذکر فرمایا، جو غور کرنے والے کے لیے کافی تھی، مگر اس کے بعد اس سے بھی کہیں بڑی مخلوق آسمانوں اور زمین کا اور ان میں رکھی ہوئی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ قیامت کی دلیل کے طور پر اللہ تعالیٰ اکثر انسان کی پیدائش کے ذکر کے بعد آسمانوں اور زمین کی پیدائش کا ذکر فرماتا ہے اور اس سے پہلے یا بعد قیامت کا ذکر فرماتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا 27؀۪رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا 28؀ۙوَاَغْطَشَ لَيْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا 29؀۠وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا) [ النازعات : 27 تا 30 ] ”کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان ؟ اس نے اسے بنایا۔ اس کی چھت کو بلند کیا، پھر اسے برابر کیا۔ اور اس کی رات کو تاریک کردیا اور اس کے دن کی روشنی کو ظاہر کردیا اور زمین، اس کے بعد اسے بچھا دیا۔“ اسی طرح دیکھیے سورة مومن (57) اور سورة سجدہ کی شروع کی آیات۔ فَوْقَكُمْ : زمین کے کسی حصے پر چلے جاؤ آسمان اوپر ہی ہوگا۔ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ :”طَرَاۗىِٕقَ“ ”طَرِیْقَۃٌ“ کی جمع ہے۔ ”طَارَقَ یُطَارِقُ“ اور ”أَطْرَقَ“ کا معنی ایک دوسرے پر چڑھانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”تم ترکوں سے لڑو گے۔“ پھر ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : (کَأَنَّ وُجُوْھَھُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَۃُ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب قتال الترک : 2928 ] ”ان کے چہرے (ایسے چوڑے ہوں گے) جیسے وہ ایسی ڈھا لیں ہیں جن پر چمڑا چڑھایا ہوا ہے۔“ ”طَارَقْتُ بَیْنَ الثَّوْبَیْنِ“ ”میں نے دو کپڑے اوپر تلے لیے۔“ مطلب یہ ہے کہ یہ ساتوں آسمان ایک دوسرے کے اوپر ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا) [ نوح : 15 ] ”کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے پیدا فرمایا۔“ ”طَرَقَ یَطْرُقُ“ (ن) ”ضَرَبَ“ کے معنی میں بھی آتا ہے، ہتھوڑے کو ”اَلْمِطْرَقَۃُ“ اسی لیے کہتے ہیں۔ ”طَرِیْقٌ“ کا ایک معنی راستہ بھی ہے، کیونکہ وہ چلنے والوں کی ٹھوکر میں ہوتا ہے۔ آسمانوں کو ”طَرِیْقَۃٌ“ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ وہ فرشتوں کی آمد و رفت اور احکام الٰہی کے نزول اور اعمال کے اوپر جانے کے راستے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا) [ الطلاق : 12 ] ”اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔“ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِيْنَ : ”کُنَّا“ استمرار (ہمیشگی) کے لیے ہے، اسی لیے ترجمہ میں ”کبھی“ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ انسانوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد ہم ان سے بیخبر اور بےتعلق ہوگئے ہوں، یا انھیں کسی داتا، دستگیر یا گنج بخش کے حوالے کردیا ہو، نہیں، ایسا نہ کبھی تھا نہ ہوگا۔ ان کا وجود تو قائم ہی ہمارے علم اور ہماری قدرت کی بدولت ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْــرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ) [ الحدید : 4 ] ”وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔“ اور دیکھیے سورة انعام (59)۔
Top