Mafhoom-ul-Quran - At-Tur : 32
اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰذَاۤ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ
اَمْ تَاْمُرُهُمْ : یا حکم دیتی ہیں ان کو اَحْلَامُهُمْ : ان کی عقلیں بِھٰذَآ : اس کا اَمْ هُمْ : یا وہ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : لوگ ہیں سرکش
کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سکھاتی ہیں ؟ بلکہ یہ لوگ ہیں ہی شریر
نبوت کے منکر عقل سے عاری تشریح : اللہ تعالیٰ نے اپنی اس مخلوق کے بارے میں وضاحت کی ہے جو شروع دن سے آخر دن تک ایک ہی عقیدے پر قائم ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گے وہ ہے کفروشرک کا عقیدہ۔ ایسے لوگ ہمیشہ فخروغرور، نفرت، تعصب اور ہٹ دھرمی پر ایسے قائم رہتے ہیں جیسے وہی دنیا اور اس کی ہر چیز کے خالق ہیں اور خود ان کا وجود بھی ان کی اپنی ہی قدرت اور طاقت کا نتیجہ ہے وغیرہ وغیرہ بلکہ آیت 32 سے 44 تک اللہ تعالیٰ نے انہی کفاومشرکین کے بارے میں بتایا ہے۔ اور پھر پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ﷺ ان لوگوں کی طرف سے بالکل بےفکر ہوجائیں کیونکہ یہ ماننے والے نہیں ان کا علاج اس دن وعدے اور مقررہ وقت کے مطابق خوب اچھی طرح کردیا جائے گا جب ان کا کوئی داؤ پیچ حیل و حجت اور فخروغرور ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ وہ دن سخت عذاب کا دن ہوگا۔ اس قدر مشکل اور ہولناک کہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ یعنی قیامت کا دن۔ آپ ﷺ کو اللہ نے ان لوگوں کی بےراہروی اور جہالت سے بےنیاز ہو کر اپنے رب کی تسبیح و تقدیس کا حکم دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے برے اور ناداں لوگوں کی پرواہ کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے ان سے بےنیاز ہوجانا بہتر ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ ' نادانوں کی بات پر تحمل، عقل کی زکوٰۃ ہے۔ تسبیح و تقدیس کے طریقے کی وضاحت علماء کرام نے بڑے مختلف الفاظ اور انداز میں کی ہے۔ ان سب کی روشنی میں اور آیات کے الفاظ کے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہر زمانے میں شیطان اور اس کے ساتھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف بولتے رہے رسولوں کو تو انہوں نے اتنا ستایا تکلیفیں پہنچائیں اور تہمتیں لگائیں کہ وہ اپنے وطن، گھر بار آل اولاد اور بیوی بچے تک چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کر جانے تک مجبور ہوگئے۔ اور اکثر کو تو انہوں نے قتل تک کردیا جیسا کہ نبی اکرم ﷺ پر کئی دفعہ حملہ کیا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے ایسے اچھے اور بر گزیدہ لوگوں کو اپنی مدد اور رحمت کا یقین دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ' تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو جب اٹھا کرو تو اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیا کرو اور رات کے بعض حصوں میں بھی۔ (آیات 49-48) مطلب یہی ہے کہ صبر، سکون، یقین، ہمت اور پورے اعتماد کے ساتھ اپنے فریضہ تبلیغ میں لگے رہو اور اللہ کی مدد ہر دم مانگتے رہو۔ بیشک لوگ تمہارے خلاف بولیں برا بھلا کہیں تو ان کی ہرگز پرواہ مت کرو کیونکہ اللہ تو تمہیں بھی دیکھ رہا ہے اور انہیں بھی دیکھ رہا ہے۔ بس اللہ کی تعریف اور مدد کو ہر حال میں سامنے رکھو۔ صبح دوپہر رات غرض کہ ہر وقت اس کی پاکی بیان کرتے رہو اس سے مدد مانگتے رہو۔ وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور مدد مانگنے والے کی مدد فرماتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں سب کو خوش رکھنا بہت مشکل ہے اس لیے بس اللہ سے اپنا معاملہ صاف رکھو اور کسی کی بےجا خوشی و نا خوشی کی پرواہ مت کرو۔ حضرت محمد ﷺ محسن انسانیت ہیں وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے والے انتہائی عابد و زاہد اور مشفق و مہربان ہستی ہیں۔ ان کی دی ہوئی تعلیمات اور ان کی گزاری ہوئی زندگی رہتی دنیا تک تمام انسانیت کے لیے مینارہ نور ہے۔ قرآن کی عظمت اور حضور ﷺ کی شخصیت اتنی لاجواب اور بہترین ہے کہ غیر مسلم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند غیر مسلم دانشوروں کے بیان پیش خدمت ہیں۔ 1 ۔ نپولین بوناپارٹ : میں عظیم حضرت محمد ﷺ اور عظیم قرآن کے دین پر ایمان رکھتا ہوں اور ایک ایسی مملکت قائم کرنا چاہتا ہوں جو قرآن کے اصولوں پر قائم ہو۔ 2 ۔ جارج برنارڈشا : میرا یقین ہے کہ ایک سو سال کے اندر یورپ میں اگر کوئی مذہب ہوگا تو وہ صرف اسلام ہوگا۔ 3 ۔ جارج برنارڈشا : حضور ﷺ جیسے پاکباز انسان کو اگر رسول اللہ ﷺ کا خطاب دیا جائے تو یہ صداقت ہے۔ 4 ۔ سردار دیوان سنگھ : میرے دل میں یہ محبت ہے کہ میں پیغمبر اسلام ﷺ کے قدموں کو چوم لوں۔ (از عزیز الرحمان۔ روزنامہ جنگ سنڈے میگزین) تاریخ گواہ ہے اسلام کبھی بھی تلوار کے زور پر نہیں بلکہ قرآن کی عظمت اللہ کی مہربانی اور رسول اللہ ﷺ کے حسن کردار حکمت عملی صبرو برداشت جہد مسلسل اور اللہ پر مکمل بھروسے اور اخلاقیات سے پھیلا ہے۔ بلکہ یہ سچ بات ہے کہ جس دل میں برداشت کی قوت ہے وہ کبھی شکست نہیں کھاتا اور دلوں کو فتح کرنے کے لیے تلوار کی نہیں بلکہ اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دو قطرے اور دو قدم بہت پسند ہیں۔ ایک آنسو کا وہ قطرہ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے ٹپکے دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے گرے۔ اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادت کی ہرگز ضرورت نہیں بلکہ عبادت تو ہم خود اپنے لیے کرتے ہیں کیونکہ عبادت ہمارے اندر اتحاد، خوشی یقین اور دکھوں کو برداشت کرنے دکھوں کا مقابلہ کر کے پاک صاف زندگی گزارنے کی ہمت اور طاقت پیدا کرتی ہے۔ اور پھر سب سے بڑا انعام اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا انتہائی آسان اور موثر ذریعہ ہے۔ اسی ذریعہ سے تو ہمیں آخرت میں بہت بڑا انعام جنت کی صورت میں ملے گا۔ یہ وعدہ اس عظیم الشان رب العٰلمین بادشاہوں کے بادشاہ کا ہے۔ جو ہر وقت ہر جگہ موجود ہے جو ہمیں ہر لحظہ دیکھتا ہے اور جو بڑا ہی منصف اور مہربان ہے۔ اللہ نے فرمایا جو میری طرف ایک قدم بڑھاتا ہے میں اس کی طرف دس قدم بڑھاتا ہوں جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ جو مجھ سے مانگتا ہے میں اس کو دیتا ہوں۔ پھر فرمایا۔ ' جو مجھ سے مانگتا ہے میں اس کو دیتا ہوں۔ (القرآن) کئی دفعہ انسان کہتا ہے۔ بڑی دعا کی مگر پوری نہیں ہوئی تو اس کی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ مانگنے میں کچھ کمی کا اندازہوتا ہے اور دوسرا جو ہم مانگ رہے ہیں ممکن ہے اصل میں وہ ہمارے حق میں اچھا نہ ہو۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک بچہ چمکتے ہوئے انگارے کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے تو ماں اس کو اس کام سے سختی سے منع کرتی ہے کیونکہ وہ صرف پکڑنے کی خواہش رکھتا ہے جب کہ ماں جانتی ہے اس خواہش کے پورا ہونے سے اس کا ہاتھ جل جائے گا۔ تو ہماری دعا پوری نہ ہونے کی وجہ اللہ کا وہ پیار اور رحم ہے جو اس کو اپنے بندوں سے ہے۔ اللہ کا پیار ماں کے پیار سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے رب العزت فرماتا ہے۔ ' اور کثرت سے کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے اجروں اور مغفرت کا انتظام کیا ہے۔ (الاحزاب آیت 35) پھر ایک جگہ فرماتا ہے۔ ' جب تمہارا آمنا سامنا کسی گروہ سے ہوجائے تو جم کر رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ کامیاب ہو سکو۔ ( سورة انفال آیت 45) اتنا کچھ جان لینے کے بعد ہمیں یہ خوب اچھی طرح معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ سورت تو الحمد للہ ختم ہوئی اب اس کے خلاصہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ خلاصہ سورة الطور 1 ۔ انسان کے لیے سب سے بڑی قابل عزت ' قابل یقین اور قابل عبادت صرف اللہ کی ذات ہے۔ 2 ۔ دنیا کی سب سے عظیم شخصیت حضرت محمد ﷺ ہیں۔ 3 ۔ دنیا کی سب سے عظیم کتاب قرآن پاک ہے۔ 4 ۔ دنیا کا سب سے عظیم مذہب اسلام ہے۔ 5 ۔ دنیا کا سب سے عظیم اجتماع حج کا اجتماع ہے۔ 6 ۔ دنیا کی سب سے عظیم مسجد مسجد حرام ہے۔ 7 ۔ دنیا کی سب سے عظیم دعوت اذان کی ہے۔ 8 ۔ بہترین زندگی تقویٰ کی زندگی ہے۔ مولانا وحید الدین صاحب بہت اچھی بات لکھتے ہیں۔ ' انسان آج ہی سن لے کیونکہ کل تو سنے گا مگر اس وقت تیرا سننا بےکار ہوگا۔ آج ہی سوچ لے کیونکہ موت کے بعد تو سوچے گا مگر اس وقت کا سوچنا تجھے کچھ کام نہ آئے گا اللہ کا راستہ تیرے سامنے کھلا ہوا ہے اس کو پکڑلے ' اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لا اللہ کی کتاب کو اپنی زندگی کا دستور بنا آخرت کے دن کے لیے تیاری کر۔ یہی تیری کامیابی کا راستہ ہے اسی میں وہ زندگی چھپی ہوئی ہے ' جس کی تجھے تلاش ہے۔ (مذہب اور جدید چیلنج) ' اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم ) دعا : اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (سورۃ البقرۃ آیت 201) ۔ (آمین)
Top