Mafhoom-ul-Quran - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
تو ہم کو ان چیزوں کی قسم جو تم کو نظر آتی ہیں
قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت تشریح : یہاں اللہ تعالیٰ قرآن کی سچائی معقولیت اور لاجواب کتاب ہونے پر قسم اٹھاتا ہے یہ قسم بات میں زور پیدا کرنے کے لیے اٹھائی جا رہی ہے۔ یہاں کائنات میں موجود ہر اس چیز کی قسم کھائی گئی ہے جو ہماری نظروں کے سامنے واضح صورت میں موجود ہیں اور ان چیزوں کی بھی جو بیشمار مختلف صورتوں میں کائنات میں ہر طرف موجود ہیں اور ابھی تک کوئی محقق ان کو نہ دیکھ سکا ہے نہ ان کی وضاحت ہی کرسکا ہے۔ کہ قرآن پاک الہ العٰلمین کا کلام ہے معزز ترین فرشتے سیدناجبرائیل (علیہ السلام) کی زبان سے رسول کریم ﷺ تک پہنچایا گیا ہے۔ اور اس میں کوئی شک و شبہ یا تحریف و ترمیم ہرگز نہیں کی گئی اور نہ ہی کبھی کی جاسکے گی۔ یہ کلام نہ کسی شاعر کا ہے اور نہ کاہن کا بلکہ یہ تو صرف اللہ کا بھیجا ہوا کلام ہے اپنے بندوں کی ہدایت راہنمائی اور سہولت کیلئے۔ قرآن پاک کا کلام مسلم غیر مسلم اور محقق و دانش ور کے لیے ایک حیرت انگیز بات سے کم نہیں۔ کیونکہ تمام تہذیبوں سے دوررہنے والا ایک عرب صحراؤں میں رہنے والا امی کائنات کے بارے میں ایسی ایسی راز کی باتیں بتا رہا ہے جو صدیوں بعد بےحد تحقیق و جستجو سے کچھ کچھ معلوم کی جاسکی ہیں اور یہ حقیقت قرآن کی کتاب الٰہی ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔ تو یہ کتاب ایسے رسول پاک ﷺ پر نازل ہوئی ہے جو خود بھی رحمت للعٰلمین ہیں اور اس کتاب کا کلام تو ہے ہی رحمت و برکت والا۔ جن لوگوں نے اس کو پڑھا سنا سمجھا اور عمل کیا بس وہی لوگ دنیا و آخرت میں فلاح پانے والے ہیں اور جو اس پر یقین نہیں رکھتے وہ اس وقت سوائے اس کے کہ حسرت سے رہ جائیں گے اور کچھ نہ کرسکیں گے جب ان سے پوچھ گچھ ہوگی۔ قیامت کے دن۔ رب العزت فرماتے ہیں پاکی بیان کر اپنے رب کی جو سب سے بڑا ہے (52) اسی میں نجات ہے اسی میں سکون اور کامیابی ہے۔ گرتومی خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآں زیستن علامہ اقبال (رح) دعا ہے۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! آپ ہی میرے کارساز ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مجھے پوری فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اٹھا لیجئے اور مجھے خاص نیک بندوں میں شامل کر دیجئے۔ (سورۃ یوسف : 101) آمین۔ خلاصہ سورة الحاقہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سچ مچ ہونے والی یعنی جس کے ہونے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہ ہو۔ اور وہ کیا ہے ؟ یہ قیامت کبریٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ کفار مکہ اس بات کو یعنی قیامت کے آنے سے انکار کر رہے تھے تو ان کو اللہ جل جلالہ کی بھیجی ہوئی کتاب کے ذریعے خوب اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے بلکہ اس کا خوفناک منظر بھی کھینچ دیا گیا ہے۔ پھر بھی اگر جو لوگ اس کا یقین نہیں کرتے تو وہ سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہ کرسکیں گے اور جو اس پر یقین کرتے ہیں ظاہر ہے وہ خوف خدا دل میں رکھ کر زندگی گزارتے ہیں تو اچھی زندگی گزارتے ہیں اور اس لیے آخرت میں بھی یہ لوگ فلاح پائیں گے اور جنت کا انعام پائیں گے جب کہ منکریں کو سوائے دوزخ کے اور کچھ نہ ملے گا جو کہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ اور یہ تمام خبریں قرآن پاک میں بتائی گئی ہیں اس قرآن میں جو اللہ کی طرف سے لفظ بلفظ یقینی اور سچا ہے۔ اسی طرح اس میں دی گئی قیامت کی خبر بھی بالکل سچ اور یقینی ہے اور جیسے آئے دن انسان مرتے رہتے ہیں اور کہیں قدرتی آفات اور کہیں اللہ کے غضب سے بڑے بڑے طبیعیاتی انقلابات آتے رہتے ہیں جو کہ ثبوت ہیں اس بڑی قیامت کے جس کا ذکر اس سورت میں پر زور طریقہ سے کیا گیا ہے۔ اللہ اس کی سختی ” گبھراہٹ اور پریشانی سے بچائے آمین۔ مولانا وحید الدین خان صاحب لکھتے ہیں۔ اس طرح موت کو غیر یقینی بنانے کے لیے اس کے اسباب کی جتنی چھان بین کی گئی ہے وہ سب ناکامی پر ختم ہوئی ہے۔ ڈاکٹر الکس کیرل اسی سلسلے میں لکھتے ہیں۔ انسان بقا کی تلاش اور جستجو سے کبھی نہیں اکتائے گا مگر اس کو کبھی یہ چیز حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ جسمانی ساخت کے چند قوانین کا پابند ہے وہ عضویاتی زمان کو روکنے اور غالباً ایک حد تک اس کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوسکتا ہے لیکن وہ موت پر کبھی فتح نہیں پاسکتا (Man the Unknown) اس طرح نظام کائنات کی موجودہ شکل کا درہم برہم ہونا بھی ایک ایسی چیز ہے جو بالکل واقعاتی طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کائنات میں ہم جن چھوٹی چھوٹی قیامتوں سے واقف ہیں وہی آئندہ کسی وقت زیادہ بڑے پیمانے پر واقع ہونے کی پیش گوئی ہے۔ ایک جغرافیہ دان کے الفاظ میں ہمارے آباد شہروں اور نیلے سمندروں کے نیچے ایک قدرتی جہنم دہک رہا ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ہم ایک عظیم ڈائنامیٹ کے اوپر کھڑے ہیں ” جو کسی بھی وقت پھٹ کر سارے نظام ارضی کو درہم برہم کرسکتا ہے۔ (Geography Games, Biography of the Earth P 82). یہی حال بیرونی کائنات کا ہے ” ایک ایسے لامحدود خلا کا جس میں بےانتہاء بڑے بڑے آگ کے الاؤ (ستارے) بیشمار تعداد میں اندھا دھند گردش کر رہے ہیں ” جیسے بیشمار لٹو کسی فرش پر ہماری سواریوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ مسلسل ناچ رہے ہوں۔ یہ گردش کسی بھی وقت زبردست ٹکراؤ کی صورت اختیار کرسکتی ہے ” اس وقت کائنات کی حالت بہت بڑے پیمانے پر ایسی ہی ہوگی۔ (مذہب اور جدید چیلنج) جیسی کہ قرآن پاک میں بتائی گئی ہے۔ اور زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں پھر انہیں ایک ہی دفعہ کوٹ دیا جائے۔ پھر اس دن ہو پڑے ہونے والی۔ اور آسمان پھٹ جائے پھر وہ اس دن بکھر جائے۔ (16-15-14 سورة الحاقہ) تو اس اچانک آنے والی قیامت کے لیے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ اور پھر حاضر ہو کر حساب کتاب دیکر بدلہ پانے کے لیے بھی تیاری رکھنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ بیشک یہ دنیا بڑی شیریں شاداب اور دل کش ہے اللہ نے اس میں تمہیں جانشین مقرر کیا ہے تاکہ وہ تمہیں جانچے کہ تم کیا روش اختیار کرتے ہو ” پس دنیا سے بچ بچ کر رہو۔ (مسلم)
Top