Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 23
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ
جَنّٰتُ : باغات عَدْنٍ : ہمیشگی يَّدْخُلُوْنَهَا : وہ اس میں داخل ہوں گے وَمَنْ : اور جو صَلَحَ : نیک ہوئے مِنْ : سے (میں) اٰبَآئِهِمْ : ان کے باپ دادا وَاَزْوَاجِهِمْ : اور ان کی بیویاں وَذُرِّيّٰتِهِمْ : اور ان کی اولاد وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے يَدْخُلُوْنَ : داخل ہوں گے عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ : سے كُلِّ بَابٍ : ہر دروازہ
(یعنی) ہمیشگی کے باغ جن میں وہ (خود بھی) داخل ہوں گے اور (وہ بھی) جو جنت کے لائق ہوں گے ان کے ماں باپوں میں سے اور ان کے میاں بیویوں میں سے اور ان کی اولاد میں سے،46۔ اور فرشتے ان کے پاس ہر دروازہ سے داخل ہوتے ہوں گے
46۔ یعنی یہ نیک کردار اور اولوالالباب جنت میں خود تو خیر داخل ہوں گے، ان کے ساتھ ہی ان کے بڑے اور چھوٹے اور برابر والے عزیزوں کو بھی جنت میں پہنچا دیا جائے گا، بشرطیکہ ان میں صلاحیت بھی کسی درجہ کی جنت میں جانے کی ہوئی۔ (آیت) ” من صلح “۔ اس قید نے صاف کردیا کہ اہل جنت سے مطلق قرابت کا تعلق مغفوریت کے لیے کافی نہیں مغفرت تو ایمان ہی پر مرتب ہوگی البتہ ترقی درجات و مراتب کی گنجائش اعزہ واقربا کی شفاعت کی بنا پر ہے۔ قال ابن عباس ؓ یرید من صدق بما صدقوا بہ وان لم یعمل مثل اعمالھم (کبیر) قال الواحدی والصحیح ما قال ابن عباس ؓ (کبیر) والمعنی انہ یلحق بھم من صلح من اھلیھم وان لم یبلغ مبلغ فضلھم تبعا لھم تعظیما لشانھم (بیضاوی) وھو دلیل علی ان الدرجۃ تعلوا بالشفاعۃ (بیضاوی) وفی التقیید بالصلاح دلالۃ علی ان مجرد الانساب لاتنفع (بیضاوی) وان لم یعملوا بعملھم یکونون فی درجاتھم تکرمۃ لھم (جلالین) اے یجمع بینھم وبین احباءھم فیھا من الاباء والاھلین والابناء بمن ھو صالح لدخول الجنۃ من المومنین لتقراعینھم بھم (ابن کثیر) (آیت) ” ابآءھم “۔ اس کے تحت میں عجب نہیں جو کل بزرگان خاندان آجائیں، باپ اور ماں دونوں کی طرف سے۔ (آیت) ” ازواجھم “۔ زوج میں میاں بیوی مذکر ومؤنث دونوں آگئے۔ (آیت) ” ذریتھم “۔ ذریت کے تحت میں عجب نہیں کہ فروع وتوابع سب آجائیں لڑکے، لڑکی، پوتے، نواسے اور پھر شاگرد مسترشدین وغیرہ۔
Top