Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 14
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور وہ وہی (اللہ) ہے جس نے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ،19۔ اور تاکہ تم اس میں زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو،20۔ اور تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ اس میں پانی چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں تاکہ تم اللہ کے فضل سے تلاش کرتے رہو، اور تاکہ تم (اس کا) شکر ادا کرتے رہو،21۔
19۔ (حلال دریائی جانوروں کا) البحر۔ بحر کا مفہوم عربی میں وسیع ہے۔ سمندر اور دریادونوں اس کے تحت میں آجاتے ہیں۔ البحر یشمل الملح والعذب (بحر) اصل البحر کل مکان واسع جامع للماء الکثیر (راغب) (آیت) ’ سخر البحر “۔ یعنی دریا وسمندر بھی اسی کے قانون تکوینی کے محکوم ومسخر ہیں۔ نہ خود آفریدہ ہیں نہ خود مختار۔ مصر میں دریائے نیل کی پرستش کا نظارہ اسی طرح عام رہ چکا ہے۔ ، جس طرح آج ہندوستان میں گنگا مائی اور جمنا مائی، اور سرجومائی اور نربدامائی اور تاپتی مائی اور بھاگیرتی مائی، اور اور بیشمار دریاؤں کی پرستش کا ہے۔ 20۔ جیسے موتی یا مونگے، صوفیہ محققین نے کہا ہے کہ پر زینت لباس جبکہ حاجب عن الحق نہ ہو، خلاف طریق نہیں۔ 21۔ یہ ابتغاء فضل اور توقع شکر اس کی صاف دلیل ہیں کہ بڑی سی بڑی بحری تجارتیں کرنا، اور ان سے نفع اٹھانا ذرا بھی منافی تقوی نہیں۔ (آیت) ” تری الفلک “۔ خطاب عام ناظرین سے ہے۔ (آیت) ” فیہ “۔ یعنی دریا میں، سمندر میں۔ (آیت) لتبتغوا من فضلہ “۔ یعنی ان بحری سواریوں سے تجارت کرو۔ ابتغاء فضل سے مراد تجارت ہے۔ ابتغاء الفضل اے التجارۃ (کشاف)
Top