Al-Qurtubi - An-Nahl : 14
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ۔ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں اور اس لئے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم خدا کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ (اسکا) شکر کرو۔
آیت نمبر 14 اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : وھو الذی سخر البحر سمندر کو مسخر کرنے کا معنی انسان کو اس میں تصریف کرنے کی قدرت دینا ہے اور اسے سوار ہونے اور پناہ لینے کے لئے مطیع کرنا ہے، اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات میں سے بہت بڑی نعمت اور احسان ہے، پس اگر وہ چاہے تو اسے ہم پر مسلط کر دے اور ہمیں غرق کر دے۔ سمندر اور اس کے شکار کے بارے بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اور یہاں اس کا نام لحم (گوشت) رکھا ہے۔ اور امام مالک (رح) کے نزدیک گوشت تین جنس کے ہیں : پس چار پاؤں والے جانوروں کا گوشت ایک جنس ہے، پروں والوں کا گوشت ایک جنس ہے، اور پانی میں رہنے والوں کا گوشت ایک جنس ہے، پس ایک جنس کی بیع کرنا اپنی ہی جنس کے ساتھ متفاضلا جائز نہیں ہے، اور گائے اور جنگلی جانور کے گوشت کی بیع کرنا پرندے اور مچھلی کے گوشت کے ساتھ یہ متفاضلا جائز ہے (یعنی دونوں مقدار میں برابر نہ ہوں) ۔ اور اسی طرح پرندے کے گوشت کی بیع کرنا گائے، جنگلی جانور اور مچھلی کے گوشت کے عوض متفاضلا جائز ہوگی۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : تمام گوشت مختلف انواع کے ہیں جیسا کہ اس کے اصول مختلف ہیں، پس گائے کا گوشت ایک نوع ہے، بکری کا گوشت ایک نوع ہے، اور اونٹ کا گوشت الگ نوع ہے۔ اور اسی طرح جنگلی جانور بھی مختلف ہیں، اسی طرح پرندے ہیں اور اسی طرح مچھلیاں ہیں۔ اور امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک یہی ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ شتر مرغ، شکار، پرندہ اور مچھلی یہ سب ایک جنس ہے ان میں تفاضل جائز نہیں ہے۔ اور ان کے مذہب میں سے ان کے اصحاب کے نزدیک پہلا قول مشہور ہے۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے ناموں میں ان کی زندگی میں فرق رکھا ہے پس فرمایا : ثمنیۃ ازواج من الضان اثنین ومن المعزاثنین (الانعام : 143) (پیدا فرمائے) آٹھ جوڑے بھیڑ سے دو (نر و مادہ) اور بکری سے دو (نر و مادہ) پھر فرمایا : ومن الابل اثنین ومن البقر اثنین (الانعام : 144) (اور اونٹ سے دو (نر و مادہ) اور گائے سے دو (نر و مادہ) پھر جب ان تمام سے گوشت کا قصد کیا تو فرمایا : احلت لکم بھیمۃ الانعام (المائدہ : 1) (حلال کئے گئے ہیں تمہارے لئے بےزبان جانور) اور انہیں ایک گوشت کے ساتھ جمع کردیا ان کے منافع قریب قریب ہونے کی وجہ سے جیسا کہ بکری کے گوشت کے منافع اور بھیڑ کے گوشت کے منافع باہم متقارب ہیں۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا : ولحم طیر مما یشتھون۔ (الواقعہ) (اور پرندوں کا گوشت بھی جس کی وہ رغبت کریں گے) اور یہ اس طائر کی جمع ہے جو واحد ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ولاطئر یطیر بجناحیہ (الانعام : 38) (اور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہے اپنے دو پروں سے) پس تمام پرندوں کے گوشت کو ایک اسم کے ساتھ جمع کردیا۔ اور یہاں فرمایا : لحما طریا پس مچھلی کی تمام اقسام کو ذکر واحد کے ساتھ جمع کردیا، پس گویا چھوٹی مچھلیاں بڑی مچھلیوں کی طرح ہیں (کیونکہ) اس جمع میں دونوں داخل ہیں۔ اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ ان سے بکری اور مینڈھے کے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا کیا وہ ایک ہی شے ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : نہیں اور کسی نے آپ سے اختلاف نہیں کیا پس یہ اجامع کی مثل ہوگیا۔ واللہ اعلم۔ اور اس کے خلاف کوئی حجت نہیں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے طعام کی بیع سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ وہ برابر برابر ہو، تو بیشک لفظ طعام اپنے اطلاق میں گندم وغیرہ تمام ماکولات کو شامل ہوتا ہے لیکن گوشت کو شامل نہیں ہوتا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ جب کوئی کہنے والا یہ کہے : میں نے آج طعام کھایا۔ تو اس سے ذہن گوشت کھانے کی طرف نہیں جاتا، اور اس لئے بھی کہ یہ حضور نبی مکرم ﷺ کے اس قول کے معارض ہے : ” جب دو جنسیں مختلف ہوں تو جیسے چاہو ان کی بیع کرو “۔ اور یہ دو جنسیں ہیں۔ اور یہ بھی کہ ہم نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ گوشت کی بیع کرنا پرندے کے گوشت کے ساتھ متفاضلا جائز ہے اس کی علت یہ ہے کہ یہ طعام کی بیع ہے اس کی زکوٰۃ نہیں ہے اسے گوشت کے ساتھ بیچا گیا ہے جس میں زکاۃ نہیں ہے، اسی طرح مچھلی کی بیع تفاضل کیساتھ کرنا پرندے کے گوشت کے ساتھ یہ بھی جائز ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اور رہی مکڑی ! تو یہ ہمارے نزدیک مشہور ہے کہ اس کے بعض کی بیع تفاضل کے ساتھ بعض کے عوض کرنا جائز ہے۔ اور سحنون کے بارے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اس سے منع کرتے ہیں، اور اسی کی طرف بعض متأخرین بھی مائل ہیں اور اسے ان چیزوں میں سے گمان کیا ہے جو ذخیرہ کی جاسکتی ہیں۔ مسئلہ نمبر 3: علماء نے ایسے آدمی کے بارے میں اختلاف کیا ہے جس نے یہ قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا۔ تو ابن القاسم نے کہا ہے : مذکورہ چاروں انواع میں سے کسی نوع کا گوشت کھانے سے وہ حانث ہوجائے گا۔ اور اشہب نے المجموعہ میں کہا ہے : وہ حانث نہیں ہوگا مگر وحشی جانوروں وغیرہ کے علاوہ دیگر جانوروں کا گوشت کھانے سے، کیونکہ اس میں عرف اور عادت کا لحاظ رکھا گیا ہے، اور اسے لفظ کے اطلاق لغوی پر مقدم کیا گیا ہے، اور یہی احسن ہے۔ مسئلہ نمبر 4: قولہ تعالیٰ : وتستخرجوا منہ حلیۃ تلبسونھا اس میں حلیۃ (زیور) سے مراد موتی اور مرجان ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یخرج منھما اللؤلؤوالمرجان۔ (الرحمن) (ان سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں) ۔ اور زیور کا نکالنا بلاشبہ صرف نمکین (سمندر) سے معروف ہے۔ اور کہا جاتا ہے : ان فی الزمرد بحریا (بےشک زمرد سمندر سے حاصل کیا گیا ہے) اور ہذلی کو موتی کے وصف میں اپنے قول میں غلط قرار دیا گیا ہے : فجاء بھا من درۃ لطمیۃ علی وججھا ماء الفرات یدوم پس انہوں نے اسے میٹھے پانی سے قرار دیا ہے۔ پس زیور حق ہے اور یہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور آپ کی اولاد پر اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو تخلیق فرمایا اور انہیں تاج پہنایا گیا اور جنت کے جواہر کے ساتھ آراستہ اور مرصع کیا گیا تھا، اور آپ کو وہ انگوٹھی پہنائی گئی جس کے وارث آپ سے حضرت سلیمان بن داؤد صلوات اللہ علیہم بنے اور اس کو خاتم العز (عزت اور غلبے کی انگوٹھی) کہا جاتا تھا جیسا کہ روایت کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں پر اسکے ساتھ احسان عام فرمایا جو کچھ سمندر سے نکلتا ہے، پس اس میں سے کوئی شے ان پر حرام نہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مردوں پر سونا اور ریشم حرام قرار دیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے صحیح میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم ریشم مت پہنو کیونکہ جس نے دنیا میں اسے پہن لیا وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا “۔ اس کے بارے گفتگو عنقریب سورة الحج میں آرہی ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی بنوائی اور اس میں ایسانگینہ لگوایا جو آپ کی ہتھیلی کے باطن کے ساتھ ملا ہوتا تھا، اور اس میں محمد رسول اللہ ﷺ نقش کرا دیا، تو لوگوں نے بھی اس کی مثل انگوٹھیاں بنوالیں، پس آپ ﷺ نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے یہ بنوالی ہیں تو آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا : لا البسہ ابدا (میں کبھی بھی اسے نہیں پہنوں گا) بعد ازاں آپ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوالیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے بیان فرمایا : حضور نبی کریم ﷺ کے بعد وہ انگوٹھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پہنی پھر حضرت عمر فاروق ؓ نے اور پھر حضرت عثمان ؓ نے، یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ سے وہ بئراریس میں گر پڑی۔ ابو داؤد نے کہا ہے : لوگوں نے حضرت عثمان ؓ سے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ جب آپ کے ہاتھ سے انگوٹھی گر پڑی۔ اور علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ تمام مردوں پر چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ علامہ خطابی نے کہا ہے : عورتوں کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا مکروہ ہے، کیونکہ یہ مردوں کے لباس میں سے ہے، پس اگر وہ سونا نہ پائیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اسے زعفران یا اس کے مشابہ کسی شی کے ساتھ زرد بنا دیں (یعنی سنہری بنا دیں) اور سلف و خلف میں سے جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی بنوانا حرام ہے، سوائے اس روایت کے جو ابوبکر عبد الرحمن اور خباب سے مروی ہے، وہ اس کے خلاف ہے اور شاذ ہے، اور ان دونوں میں سے کسی کو نہی اور نسخ کا حکم نہیں پہنچا۔ واللہ اعلم۔ اور رہی وہ روایت جو حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھی دیکھی، پھر لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوائیں اور پہن لیں، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھنک دیں۔ اسے صحیحین نے نقل کیا ہے اور الفاظ امام بخاری (رح) کے ہیں۔ علماء کے نزدیک یہ ابن شہاب نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے پس ایک کے مقابلے میں فیصلہ جماعت کے مطابق کرنا واجب ہے جبکہ وہ ایک جماعت کے مخالف ہو، اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث بھی جماعت کی شہادت دیتی ہے۔ مسئلہ نمبر 6: جب مردوں کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا اور اس سے زینت حاصل کرنا جائز ہے اور یہ ثابت ہے، تو علماء میں سے ابن سیرین وغیرہ نے مکروہ قرار دیا ہے کہ وہ اس میں نقش کروائے اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو۔ اور علماء کی جماعت نے اس میں نقش کرانے کو جائز قرار دیا ہے، پھر جب وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم یا کلمہ حکمت یا قرآن کریم میں سے کوئی کلمات نقش کروائے اور اسے اپنے بائیں ہاتھ میں پہنے، تو کیا وہ اس کے ساتھ بیت الخلا میں داخل ہو سکتا ہے اور اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ استنجا کرسکتا ہے ؟ تو حضرت سعید بن مسیب ؓ اور امام مالک (رح) نے اس میں تخفیف کی ہے (اور رخصت دی ہے) امام مالک (رح) سے پوچھا گیا : اگر انگوٹھی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کندہ ہو اور آدمی اسے بائیں ہاتھ میں پہنتا ہو تو کیا وہ اس کے ساتھ استنجا کرسکتا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : میں امید کرتا ہوں کہ اسے رخصت ہوگی۔ اور آپ سے کراہت بھی مروی ہے اور یہی أولی ہے۔ اور آپ نے اکثر اصحاب نے اس سے منع کیا ہے۔ اور ہمام نے ابن جریج سے، انہوں نے زہری سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلا میں تشریف لے جاتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار لیتے۔ ابوداؤد نے کہا ہے : یہ حدیث منکر ہے، اور بلاشبہ ابن جریج سے معروف ہے کہ انہوں نے زیادہ بن سعد سے انہوں نے زہری سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی پھر اسے پھینک دیا۔ ابو داؤد نے کہا ہے : اسے ہمام کے سوا کسی نے بیان نہیں کیا۔ مسئلہ نمبر 7: امام بخاری (رح) نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اس میں ” محمد رسول اللہ “ نقش کروایا اور فرمایا : ” بیشک میں نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں محمد رسول اللہ ﷺ نقش کروایا ہے پس تم میں سے کوئی اس نقش پر نقش نہ کروائے “۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : یہ اس پر دلیل ہے کہ آدمی کے لئے انگوٹھی پر اپنا نام لگوانا جائز ہے۔ امام مالک نے کہا ہے : خلفاء اور قضاۃ کی یہ شان ہے کہ وہ اپنے نام اپنی انگوٹھیوں پر کندہ کروائیں، اور آپ ﷺ کی نہی یہ ہے کہ کوئی بھی آپ کی انگوٹھی کے نقش کی طرف نقش نہ بنوائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اسم اور صفت اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی مخلوق کی طرف وصف رسالت کے ساتھ متصف ہے۔ اور اہل شام نے روایت کیا ہے کہ حاکم کے بغیر کسی کے لئے انگوٹھی بنوانا جائز نہیں ہے۔ اور انہوں نے اس بارے میں حدیث بھی روایت کی ہے۔ وہ ابو ریحانہ نے مروی ہے اور یہ وہ حدیث ہے جس میں ضعف کی وجہ سے کوئی حجت نہیں ہے۔ اور آپ ﷺ کا ارشاد : لا ینقشن أحد علی نقشہ بھی اسے رد کرتا ہے، اور یہ تمام لوگوں کے انگوٹھی بنوانے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، جبکہ وہ آپ ﷺ کی انگوٹھی کے نقش پر منقش نہ ہو۔ اور حضرت زہری (رح) کی انگوٹھی کا نقش محمد یسأل اللہ العافیۃ تھا۔ اور امام مالک (رح) کی انگوٹھی کا نقش حسبی اللہ ونعم الوکیل تھا۔ ترمذی الحکیم نے (نو ادر الاصول) میں ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی انگوٹھی کا نقش لکل اجل کتاب۔ (الرعد) تھا اور یہ سورة الرعد میں گزر چکا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؓ کے پاس یہ خبر پہنچی کہ ان کے بیٹے نے ایک ہزار درہم کے عوض انگوٹھی خریدی ہے تو آپ نے اس کی طرف دیکھا : بیشک مجھے یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ تو نے ہزار درہم کے عوض انگوٹھی خریدی ہے، پس تو اسے فروخت کر دے اور اس سے ہزار بھوکوں کو کھانا کھلا۔ اور ایک درہم کے ساتھ لوہے کی انگوٹھی خریدلے، اور اس پر یہ لکھ رحم اللہ امرءا عرف قدر نفسہ (اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جس نے اپنے نفس کی قدر پہچان لی) ۔ مسئلہ نمبر 8: جس کسی نے قسم کھائی کہ وہ زیور نہیں پہنے گا پھر اس نے موتی پہن لئے تو وہ حانث نہ ہوگا، یہی امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : کیونکہ یہ وہ ہے جسے لغوی طور پر اسم اگرچہ شامل ہے لیکن قسم کے ساتھ اس کا قصد اور ارادہ نہیں، اور قسم عرف کے ساتھ مختص ہوتی ہے۔ کیا آپ جانتے نہیں کہ اگر کسی نے قسم کھائی کہ وہ فراش پر نہیں سوئے گا پھر وہ زمین پر ہو یا تو حانث نہ ہوگا ؟ اور اسی طرح کسی نے قسم کھائی وہ سراج (چراغ) سے روشنی حاصل نہیں کرے گا پھر وہ سورج کی روشنی میں بیٹھ گیا تو وہ حانث نہ ہوگا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فراش کا اور سورج کو سراج کا نام دیا ہے۔ اور امام شافعی، امام ابو یوسف، اور امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ نے کہا ہے : جس نے یہ قسم کھائی کہ وہ زیور نہیں پہنے گا اور اس نے موتی پہن لئے تو وہ حانث ہوجائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وتستخرجوا منہ حلیۃ تلبسونھا اور جو کچھ اس (سمندر) سے نکلتا ہے وہ موتی اور مرجان ہیں۔ مسئلہ نمبر 9: قولہ تعالیٰ : وتری الفلک مواخر فیہ کشتی اور سمندر میں سوار ہونے کا ذکر سورة البقرہ وغیرہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ اور قولہ تعالیٰ : مواخر حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : جواری (چلنے والیاں) ، یہ جرت تجری سے ماخوذ ہے۔ اور سعید بن جبیر ؓ نے کہا ہے اس کا معنی ہے : معترضۃ (چوڑی بچھی ہوئی) ۔ اور حسن نے کہا ہے : مواقر (یعنی لدی ہوئی) اور حضرت قتادہ اور ضحاک نے کہا ہے : یعنی وہ جارہی ہیں اور آرہی ہیں درآنحالیکہ وہ ایک ہی ہوا کے ساتھ آنے والی ہیں اور واپس جانے والی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے : مواخر سمندر کے اندر موجوں کو چیرتے ہوئے۔ المخر کا اصل معنی پانی کو دائیں بائیں سے چیزنا، شق کرنا ہے۔ مخرت السفینۃ تمخر مخرا ومخورا جب کشتی پانی کو چیرتے ہوئے آواز کے ساتھ چلے، اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : وتری الفلک مواخر فیہ یعنی تو انہیں چلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ یہ جوہری نے کہا ہے۔ اور مخر السابح جب تیرنے والا اپنے سینے کے ساتھ پانی کو شق کرے، چیرے۔ اور مخر الارض اس نے زمین کو کاشت کے لئے پھاڑا۔ اور مخرھا بالماء جب زمین میں پانی روک لیا جائے یہاں تک کہ وہ أریضۃ ہوجائے، یعنی وہ کھیتی کا بہترین اور عمدہ سبزہ اگانے کے قابل ہوجائے۔ اور علامہ طبری (رح) نے کہا ہے : لغت میں المخر کا معنی ہے ہو ا کے چلنے کی آواز اور یہ پانی میں ہونے کے ساتھ مقید نہیں، اور کہا : بیشک اس بارے میں واصل مولی ابی عینیہ کا قول ہے : جب تم میں سے کوئی بول (چھوٹا پیشاب) کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اجسام میں ہوا کی آواز میں غور و فکر کرے کہ وہ کس سمت سے آرہی ہے، پھر وہ اس کی طرف منہ کرنے سے اجتناب کرے تاکہ اس کا بول اس پر لوٹ کر نہ آئے۔ ولتبتغوا من فضلہ یعنی چاہئے کہ تم اس پر تجارت اور طلب منفعت کے لئے سوار ہو۔ ولعلکم تشکرون یہ سب سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ والحمدللہ۔
Top