Mafhoom-ul-Quran - An-Nahl : 14
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا۔ تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھائو۔ اور اس سے زیور موتی وغیرہ نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں اور اس لیے بھی دریا کو تمہارے اختیار میں کیا کہ تم اللہ کا فضل (معاش) تلاش کرو تاکہ اس کا شکرادا کرسکو۔
سمندری نعمتیں تشریح : جیسا کہ پچھلی آیات میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو زمین سے تعلق رکھتی ہیں یہاں ان نعمتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو انسان سمندروں سے حاصل کرتا ہے۔ سمندر اور دریا بھی انسان کے لیے مسخر کردیے گئے ہیں پہلا فائدہ تو بیشمار پانی کا ہے جو ہمیں دھوپ کے ذریعے کشید ہو کر بادلوں اور بارش کے ذریعہ سے ملتا ہے، سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے جس کو انسان بغیر کشید کیے پی نہیں سکتا یہ بھی بڑی حکمت کی بات ہے آئندہ اس پر بحث ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ پندرھویں صدی عیسوی میں ایک نئی دریافت یہ ہوئی تھی کہ سمندر کی گہرائیوں میں بہنے والے دریا ہیں جو پانی کا ایک بڑا ذخیرہ ایک خاص طرف باقاعدہ لاتے اور لے جاتے ہیں یہ دریا میٹھے پانی کے ہیں اگر پانی میٹھا ہے تو سمندر کا نمکین پانی اس میں شامل نہیں ہوتا اور اگر گرم پانی کا دریا ہے تو بھی سمندر کا کھاری پانی اس میں شامل نہیں ہوتا۔ قرآن میں اس راز کی طرف یوں اشارہ ملتا ہے۔ اللہ نے فرمایا : ” اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے ایک لذیذ و شیریں اور دوسرا نمکین اور کھارا اور دونوں کے درمیان پردہ حائل ہے جو انہیں آپس میں مکس ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ “ (سورۃ الفرقان آیت 52) یہ تو کچھ علیحدہ معلومات ہیں جن کا ذکر آیت 14 میں نہیں کیا گیا، بہرحال سمندری نعمتوں میں یہ بھی شامل ہیں۔ آیت میں موجود ایک تو پانی کی نعمت کا ذکر ہے دوسرا ان آبی جانوروں کا ذکر ہے جن کو انسان سمندر اور دریا میں سے نکال کر خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے جس میں سب سے بڑی خوراک مچھلی کا تازہ گوشت ہے۔ اور مچھلی دوسرے آبی جانوروں کی طرح بیشمار قسم کی ہوتی ہے۔ جو رنگ مزے اور بو میں مختلف ہوتی ہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان اس میں سے طرح طرح کے موتی حاصل کرتا ہے۔ یہ موتی بےحد نایاب، قیمتی اور خوبصورت ہوتے ہیں جو عام طور پر عورتیں زیور بنوا کر سجاوٹ کے لیے پہنتی ہیں اور کچھ جواہرات تو دوائوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ چوتھا فائدہ یہ ہے کہ خشکی کا سفر تجارت اور رسل و رسائل کا کام گھوڑے، گدھے کے ذریعے ابتدائی زمانے میں ہوتا تھا اور بعد میں گاڑی، ٹرک، ٹرین وغیرہ کے ذریعے سے ہونے لگا، پھر ہوائی جہاز بن گیا جہاز سے پہلے ایک خشکی کے علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کا راستہ کشتی اور بحری جہاز سے ہوتا تھا۔ یوں لوگ اپنے کاروبار اور روزی رزق (اللہ کا فضل) تلاش کرنے کے لیے کشتی استعمال کرتے تھے۔ کشتی اور جہاز کے پانی میں تیرنے اور لہروں کو چیرنے کا ذکر قرآن میں آیا ہے، جس کی وجہ سے مفکرین نے اس پر تحقیق کر کے ایک ایسی سواری بنائی جو پانی کے اوپر تیرتی بھی ہے اور پانی کو پھیلاتے ہوئے راستہ بناتے ہوئے آگے بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جب ان تمام نعمتوں کا ذکر ہوتا ہے تو بےاختیار اللہ کی قدرت، رحمت، حکمت اور وحدانیت پر پکا یقین ہوجاتا ہے۔ اور بےاختیار اسکا شکر بھی زبان سے ادا ہونے لگتا ہے۔ اور پھر بندہ سوچتا ہے کہ جو اتنی قدرت والا ہے تو اس نے تمام لوگوں کو خود ہی سیدھا راستہ کیوں نہ دکھا دیا تو یہاں پھر وہی بات آتی ہے کہ انسان فرشتوں، حیوانوں، نباتات اور جمادات سے افضل ہے اس کو عمل کرنے کے لیے ارادہ، علم اور عقل دی گئی ہے۔ جبکہ باقی تمام مخلوقات ارادہ، علم اور عقل کو استعمال کیے بغیر فقط اللہ کے حکم سے چلتی چلی جاتی ہیں اور مجال نہیں کہ اس میں ذرہ برابر بھی فرق آجائے۔ انسان ہونے پر بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ تمام تخلیقات انسان کے لیے ہی کی گئیں ہیں۔
Top