Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 14
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور وہی ہے جس نے سمندر کو تمہاری نفع رسانی میں لگا رکھا ہے تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھائو اور اس سے وہ زیور نکالو جو تم پہنتے ہو، اور تو دیکھتا ہے کشتیوں کو کہ موجوں کو سمندر میں چیر کر جارہی ہیں اور تاکہ تم تلاش کرو اس کے فضل کو اور تاکہ اس کے شکرگزار بنو۔
وَھُوَالَّذِیْ سَخَّرَالْبَحْرَلِتَاکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا ج وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَفِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 14) (اور وہی ہے جس نے سمندر کو تمہاری نفع رسانی میں لگا رکھا ہے تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھائو اور اس سے وہ زیور نکالو جو تم پہنتے ہو، اور تو دیکھتا ہے کشتیوں کو کہ موجوں کو سمندر میں چیر کر جارہی ہیں اور تاکہ تم تلاش کرو اس کے فضل کو اور تاکہ اس کے شکرگزار بنو۔ ) سمندر کی نعمتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے زمین پر جس طرح اپنا خوان نعمت سجارکھا ہے اور آسمان سے جس طرح اہل زمین کے لیے خدمات مہیا کی جارہی ہیں ان کا ذکر فرمانے کے بعد اب پروردگار اپنی مملکت کی ایک اور جلوہ گاہ کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ جس طرح میں زمین و آسمان کا خالق ہوں اور ان دونوں کو تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمہارے لیے فیض رسانی میں کمی نہیں کررہے اسی طرح سمندر بھی اس کی مخلوق اور اس کی مملکت کا ایک حصہ ہے۔ اور اسے بھی اس نے تمہاری خدمت اور فیض رسانی کے لیے پابند بنا رکھا ہے۔ سمندر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سمندر میں اٹھنے والے طوفان بےپناہ قوتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اس میں بننے والے بھنور اپنی گرفت میں اپنا جواب نہیں رکھتے اور اس میں اٹھنے والی موجیں بحری جہازوں تک کو اچھال دیتی ہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام قہرمانیوں اور قوتوں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا ہے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ جس طرح تم زمین کے غذائی خزانوں سے بہرہ ور ہوتے ہو اسی طرح سمندر کی تازہ غذا یعنی مچھلی کے گوشت سے بھی فائدہ اٹھائو۔ جس طرح جی چاہے ان کا شکار کرو۔ اور اس طرح سے اپنی ضروریات کا سامان کرو۔ اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہم نے اس میں تمہاری زینت کے لیے کچھ چیزیں بھی پیدا کر رکھی ہیں۔ انھیں اپنی کوشش سے حاصل کرو۔ عام طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ سمندر کی موجیں خود موتیوں کو باہر اگل دیتی ہیں۔ اور سمندر کے کنارے سے لوگ ان موتیوں کو حاصل کرلیتے ہیں جو اپنی خوبی اور رعنائی کی وجہ سے انسانوں کی نگاہ میں بہت قیمت رکھتے ہیں۔ ذرا تفکر کی نگاہ سے دیکھئے کہ یہ مچھلی سمندر کے جس پانی میں جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے اور وہیں اس کی خوراک بھی ہے وہ پانی اتنا کھاری اور کڑوا ہے کہ ہونٹوں پر نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ مچھلی کے گوشت میں اس کا ذائقہ اور بدبو تک داخل نہیں ہونے پاتی۔ اور پھر سمندر بعض دفعہ جن موتیوں کو اچھالتا ہے کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کس طرح بارش کا ایک قطرہ سیپ کے پیٹ میں اترتا ہے وہ کس طرح اس کو لے کر سمندر کی تہہ میں چلی جاتی ہے۔ اور وہ بظاہر بےجان سے اس پانی کے ایک قطرے میں کیا عمل کرتی ہے کہ اس سے ایک چمکتا ہوا موتی برآمد ہوتا ہے جس سے سورج کی چمک بھی شرماتی ہے۔ مزید فرمایا کہ سمندر کی بےکرانی سے کون واقف نہیں، اس کی گہرائی سے کسے خوف نہیں آتا، اس میں اٹھنے والے طوفانوں کی تندی کا کون مقابلہ کرسکتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے سمندر کو اس بات کا حکم دے رکھا ہے کہ وہ انسانوں کی کشتیاں اور جہاز اس طرح اپنے سینے پر اٹھا کے رکھے کہ وہ اس کی موجوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں، لیکن ڈوبنے نہ پائیں۔ جس زمانے میں لکڑی کے ایک تختے پر انسان سفر کرتا تھا سمندر اس وقت بھی آمادہ خدمت تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے پابند کر رکھا ہے۔ اور آج جبکہ بادبانی کشتیوں سے بھی آگے بڑھ کر بڑے بڑے بحری جہاز اپنی مشینوں کی قوت سے سمندر کو چیرتے ہوئے سفر کرتے ہیں تو تب بھی قرآن کریم کی یہی تعلیم ہے کہ ان مشینوں کی قوت پہ مت جاؤ اللہ تعالیٰ نے اگر تمہارے لیے سمندر کو مسخر نہ کر رکھا ہوتا تو سمندر کے سینے پر تمہاری مشینیں کبھی سفر کرنے کے قابل نہ ہوتیں۔ قرآن پاک کی شاید اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے عرصہ دراز تک سمندر کے بیشتر حصے پر حکومت کی۔ ترکوں کے بحری بیڑے کے سامنے کسی اور کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ اسی کی طرف اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا : تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ کو لمبس کے جہاز کا ملاح بھی احمدنامی ایک مسلمان تھا۔ ان تمام نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ ان تمام نعمتوں سے تمتع حاصل کرو، جی بھر کے فائدہ اٹھائو لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا مت بھولو۔ اور یہی وہ بات ہے جو انسانیت کا سرمایہ افتخار ہے۔ انسان جیسے جیسے فطرت کی قوتوں پر قابض ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کے اندر سرکشی اور طغیانی آتی جاتی ہے۔ اس سرکشی کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اسے بندگی اور شکر کی زنجیر پہنائی جائے۔
Top