Tafseer-e-Majidi - Maryam : 9
قَالَ كَذٰلِكَ١ۚ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَّ قَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ تَكُ شَیْئًا
قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكَ : اسی طرح قَالَ : فرمایا رَبُّكَ : تیرا رب هُوَ : وہ (یہ) عَلَيَّ : مجھ پر هَيِّنٌ : آسان وَّ : اور قَدْ خَلَقْتُكَ : میں نے تجھے پیدا کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَ : جبکہ لَمْ تَكُ : تو نہ تھا شَيْئًا : کوئی چیز۔ کچھ بھی
(اللہ نے) فرمایا (نہیں بلکہ) اسی طرح،10۔ (اے زکریا) تمہارے پروردگار کا قول ہے کہ یہ میرے لئے آسان ہے اور میں نے ہی تو تم کو پیدا کیا درآنحالیکہ تم کچھ نہ تھے،11۔
10۔ جواب ملا کہ نہیں۔ کوئی سی بھی اور نئی بات نہ ہوگی، موجودہ حالات بدستور رہیں گے پھر اولاد ہوگی، اے علی ھذہ الحال (ابن جریر) ھذا کماقلت لک (ابن عباس ؓ 11۔ یعنی خود اپنی پیدائش پر غور کرو، تم خود آخر کیا تھے ؟ معدودم محض تھے۔ عدم محض کو موجود کردینا کب اسباب عادی کے تحت، اور کس مشاہدہ و تجربہ کے موافق ہے ؟ محض ہماری قدرت وکارسازی کا کرشمہ ہے۔ یہ تخلیق توتمامتر بلاواسطہ اسباب ہوتی رہتی ہے۔ تو بڑھاپے میں اولاد دینا، یعنی باوجود سبب ضعیف کے نتیجہ برآمد کردینا تو اس سے کہیں کم مستبعد اور اس سے کہیں آسان تر ہے۔ یہ سب ارشاد آپ کی امید کو اور قوی کردینے کے لیے تھا نہ کہ کسی رفع شبہ کے لیے۔ اس لیے کہ زکریا (علیہ السلام) کو کوئی شبہ تھا ہی نہیں۔ (آیت) ” ھو “۔ یعنی یہ عمل تخلیق خواہ بااسباب ہو یا بلااسباب۔ زجاج لغوی کا اس سیاق میں قول ایۃ کی تفسیر میں نقل ہوا ہے۔ اے علامۃ اعلم بھا وقوع ما بشرت بہ (لسان)
Top