Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 62
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون يُّجِيْبُ : قبول کرتا ہے الْمُضْطَرَّ : بیقرار اِذَا : جب دَعَاهُ : وہ اسے پکارتا ہے وَيَكْشِفُ : اور دور کرتا ہے السُّوْٓءَ : برائی وَيَجْعَلُكُمْ : اور تمہیں بناتا ہے خُلَفَآءَ : نائب (جمع) الْاَرْضِ : زمین ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ قَلِيْلًا : تھوڑے مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
) یہ بت بہتر ہیں) یا وہ جو بےقرار کی (فریاد) سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم کو زمین میں صاحب تصرف بناتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) خدا ہے ؟ تم لوگ بہت ہی کم غور کرتے ہو،71۔
71۔ اوپر کی آیتوں میں حق تعالیٰ کی صفات خالقیت، ناظمیت و ربوبیت پر توجہ دلائی جاچکی۔ اس آیت میں اس کی صفات فریاد رسی اور تصرف تکوینی یاد دلائی گئی ہیں۔ اور پہلی آیتوں میں خطاب خاص اگر عام مشرکوں سے تھا تو اس میں مخاطبت خصوصی مسیح پرستوں، مریم پرستوں اور ہر قسم کے روح پر ستوں اور پیر پرستوں سے ہے۔ (آیت) ” یجیب “۔ اور (آیت) ” یکشف “ سے یہ مطلب نہیں کہ اللہ ہمیشہ بندہ کے حسب مرضی فرماد قبول ہی کرلیتا ہے اور ہمیشہ مصیبت کو دور ہی کردیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب کبھی بھی فریاد سنی جاتی اور دعاقبول ہوتی ہے تو یہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے کسی اور کی طرف سے نہیں ہوتی۔ (آیت) ” ما تذکرون “۔ مازائد قلت کو مؤکد کرنے کے لئے ہے۔ مامزیدۃ لتاکید معنی القلۃ التی ارید بھا العدم (روح)
Top