Al-Qurtubi - An-Naml : 62
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون يُّجِيْبُ : قبول کرتا ہے الْمُضْطَرَّ : بیقرار اِذَا : جب دَعَاهُ : وہ اسے پکارتا ہے وَيَكْشِفُ : اور دور کرتا ہے السُّوْٓءَ : برائی وَيَجْعَلُكُمْ : اور تمہیں بناتا ہے خُلَفَآءَ : نائب (جمع) الْاَرْضِ : زمین ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ قَلِيْلًا : تھوڑے مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
بھلا کون بےقرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اسکی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ (ہر گز نہیں) مگر تم غور بہت کم کرتے ہو
مسئلہ نمبر :۔ امن یحیب المضطر اذا دعاہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد سخت ضرورت والا ہے۔ سدی نے کہا : جس کے پاس کوئی حیلہ اور قوت نہیں۔ ذوالنون مصری نے کہا : جس نے اللہ تعالیٰ کے سوا سے تعلقات ختم کردیئے ہوں۔ ابو جعفر اور ابو عثمان نیشا پوری نے کہا : اس سے مرادمفلس ہے۔ سہیل بن عبداللہ نے کہا : اس سے مراد وہ شخص ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے تو اس کے پاس طاعت سے کوئی وسیلہ نہ ہو جن کو وہ پیش کرے ایک آدمی مالک بن دینار کے پاس آیا اس نے کہا : میں اللہ تعالیٰ کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے لئے دعا کرنے میں مضطر ہو فرمایا : تو پھر اس سے سوال کر کیونکہ مضطر جب دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے۔ شاعر نے کہا : وانی لادعو اللہ والا مر ضیق علی فما ینفک ان یتفرجا ورب اخ شدت علیہ وجوھہ اصاب لھال ما دعا اللہ مخرجا میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں جب کہ معاملہ مجھ پر تنگ ہے وہ چھٹنے والا نہیں۔ کتنے ہی بھائی ہیں جن پر راستے بند کردیئے گئے جب اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس نے مخرچ پا لیا۔ مسئلہ نمبر 2 : مسند ابی دائود طیالسی میں ابوبکرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجبور کی دعا کے بارے میں فرمایا :” اے اللہ ! تیری رحمت کی میں امید کرت اہوں مجھے ایک لمحہ بھی میرے سپرد نہ فرما اور سیرے ت مام معاملات کی اصلاح فرما تیرے سوا کئی معبود نہیں۔ “ (1) مسئلہ نمبر 3 :۔ مجبور آدمی جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کرنے کی ضمانت اٹھائی ہے اپنے بارے میں اس امر کی خبر دی ہے اس میں سبب یہ ہے کہ اس کی بارگاہ میں پناہ کی ضرورت اخلاص سے ہی پیدا ہوتی ہے اور غیر سے قلبی لگائو کے ختم ہونے میں جنم لیتی ہے۔ اخلاص کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا موقع اور شان ہوتی ہے۔ وہ مومن سے پایا جائے یا کافر سے، اطاعت شعار سے ہو یا فاجر سے ہو، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (2) حتی اذا کنتم فی الفلک و جرین بھم بریح طیبۃ و فرحوا بھا اجآء تھا ریح عاصف وجآء ھم الموج من کل مکان وظنوا انہم احیط بھم دعوا اللہ مخلصین لہ الدین، لئن اجیتنا من ھذہ لنکونن من الشکرین۔ (یونس) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فلما نجمنم الی البراذا ھم یشرکون۔ (العنکوت) ضرورت اور اخاص کے وقت انہیں جواب دیا جب کہ اسے علم تھا کہ وہ شرک و کفر کی طرف لوٹ چلیں گے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فا اذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدین (العنکبوت : 65) اللہ تعالیٰ مضطر کی دعا کو قبول کرتا ہے جب وہ اضطرار اور اخلاص کا مظاہرہ کر ربا ہوتا ہے۔ حدیث طیبہ میں ہے :” تین دعائیں قبول ہوتی ہیں ان میں کوئی شک نہیں مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد جب اپنے بیٹے کے خلاف دعا کرے۔ “ صاحب شہاب نے اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ صحیح مسلم میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے جب آپ ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کے علاقہ کی طرف بھیجا : فرمایا ” مظلوم کی بد دعا سے بچو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب نہیں۔ “ شہاب کی کاتب میں ہے مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اسے بادل پر سوار کیا جاتا ہے (1) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :” میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ عرصہ بعد۔ “ یہ روایت بھی صحیح ہے آجری حضرت ابوذرؓ کی حدیث سے روایت نقل کرتے ہیں :” میں اسے واپس نہیں کرتا اگرچہ وہ کافر کے منہ سے نکلے۔ “ (2) مظلوم کی دعا کو قبول کرتا ہے کیونکہ اس کو اپنی ضرورت کے ساتھ الخاص ہوتا ہے یہ سب کچھ اللہ کے کرم کے تقاضا کے مطابق ہوتا ہے اور اس کے اخلاص کو قبول کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے اگرچہ کافر ہو اس طرح اگر وہ اپنے دین میں فاجر ہو فاجر کے فجور اور کافر کے کفر سے اس سے آقا (اللہ) کی مملکت میں کوئی نقص اور ضعفواقع نہیں ہوتا اور مضطر کے لئے جو وہ دعا قبول کرتا ہے اس میں کوئی مانع نہیں ہوتا مظلوم کی دعا اس کے ظالم کے خلاف کیسے قبول ہوتی ہے اس کی تفسیر یہ بیان کی گی ہے چاہے تو اسے مغلوب کردیتا ہے، اس سے بدلہ لیتا ہے یا اس پر کوئی اور ظالم مسلط کردیتا ہے جو اس پر ظلم کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وکذلک نولی بعض الظلمین بعضاً (الانعام :129) اس کی دعا کے جلد قبول کرنے کو یوں مئوکد کیا۔ تحمل علی المام اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو معین فرماتا ہے کہ وہ مظلوم کی دعا کو لیں، اسے بادل پر کھیں اور اس کے ساتھ آسمان کی طرف بلند ہوجائیں آسمان دعائوں کا قبہل ہے تاکہ تمام ملائکہ اسے دیکھ لیں۔ اس سے مظولم کی معاونت ظاہر ہوتی ہے اور اس کی دعا کی قبولیت فرشتوں کی جانب سے اس کی سفارش ہوتی ہے۔ مقصد اس پر رحم کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ظلم سے ڈرانا مقصود ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی، اس کی معصیت اور اس کے امر کی مخالفت ہے جب اس نے اپنے نبی کی زبان سے فرمایا یہ حدیث صحیح مسلم اور دوسری کتب میں ہے۔ یا عبادی انی حرمت الظلم علی نفسی و جعلتہ بینکم محرما فلا تظالموا (3) اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کرلیا ہے میں نے اسے تمہارے درمیان حرام کردیا ہے تم باہم ظلم نہ کیا کور۔ مظلوم مجبور ہے، مسافر اس کے قریب ہے کیونکہ وہ اپنے اہل اور وطن سے الگ تھلگ ہوتا ہے، دوست اور حمایتی سے الگ تھلگ ہوتا ہے اس کی اجنبیت کی وجہ سے اس کا دل کسی مددگار سے سکون نہیں پاتا۔ مولیٰ کی بارگاہ میں اس کی ضرورت سچی ہوتی ہے اور پناہ لینے میں وہ اخلاص کا مظاہرہ کرتا ہے مضطر آدمی جب دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔ اسی طرح والد جب اپنے بیٹے کے بارے میں بد دعا کرتا ہے وہ بد دعا اس سے صادر نہیں ہوتی جب کہ والد کی اپنی اولاد پر شفقت و مہربانی معلوم و معروف ہے مگر اس وقت وہ بد دعا کرتا ہے جب وہ کامل طور پر عاجز ہوجائے اور اس کی ضرورت میں صداقت ہو اور اپنے بیٹے کی طرف سے نیکی سے بالکل مایوس ہوجائے، جب کہ ساتھ ہی ساتھ اس کی طرف سے اذیت ہو پس اس صورت میں اس کی دعا کو جلد قبول کرنا ہی مناسب و موزوں ہے۔ ویکشف السوٓء سوء کا معنی تکلیف ہے۔ کلبی نے کہا : اس کا معنی ظلم ہے۔ ویجعلکم خلفآء الارض خلفاء سے مراد مکین ہیں وہ ایک قوم کو ہلاک فرما دے اور دوسری کو پیدا فرما دے۔ کتاب نقاش میں ہے یعنی وہ تمہاری اولادوں کو تمہارا نائب بناتا ہے۔ کلبی نے کہا، کفار کا نائب بناتا ہے۔ مومن ان کی زمینوں میں جا کر فروکش ہوتے ہیں اور ان کے کفر کے بعد اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ء الہ مع اللہ یہ تو بیخ کے طریقہ پر کہا گویا فرمایا : کیا اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کوئی اور بھی الہٰ ہے تم ہلاک ہو۔ الہ یہ مع کے ساتھ مرفوع ہے یہ بھی جائز ہے کہ یہ اضمار کے ساتھ مرفوع ہو تقدیر کلام یہ ہوگی الامع اللہ یفعل ذلک فتعبدوہ مع اللہ پر وقف اچھا ہ۔ قلیلا ماتذکرون ابوعمرو، ہشام اور یعقوب نے یذکرون یاء کے ساتھ غائب کا صیغہ پڑھا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : بل اکثرھم لایعلمون۔ (النحل) و تعلی عما یشرکون۔ (یونس) ماقبل اور مابعد کے بارے میں خبر دی ابو حاکم نے اسے اختیار کیا ہے۔ باقی قراء نے تاء کے ساتھ خطاب کا صیغہ پڑھا ہے : ویجعلکم خلفاء الارض۔ امن یھدیکم تمہاری سیدھے راست ہیک طرف رہنمائی کے۔ فی ظلمت البر وا لبحر جب تم شہروں کی طرف سفر کرتے ہو تو تم رات اور دن میں ان کی طرف متوجہ ہوتے ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا : خشکی کے جنگلوں کو بنایا کہ ان کے راستوں کی کوئی علامت نہیں اور سمندر کی موجیں گویا وہ تاریکیاں ہیں کیونکہ ان میں کوئی علامت نہیں ہوتی جس کی مدد سے رہنمائی حاصل کی جاسکے۔ ومن یرسل الریح بشر بین یدی حمتہ بین یدی رحمتہ س یمراد بارش سے پہلے۔ اس پر اہل تاویل کا اتفاق ہےء الہ مع اللہ جو ایسا کرتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے تعلی اللہ عما یشرکون اللہ تعالیٰ ان بتوں سے بلند وبالا ہے جن کو وہ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
Top