Mutaliya-e-Quran - An-Naml : 62
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون يُّجِيْبُ : قبول کرتا ہے الْمُضْطَرَّ : بیقرار اِذَا : جب دَعَاهُ : وہ اسے پکارتا ہے وَيَكْشِفُ : اور دور کرتا ہے السُّوْٓءَ : برائی وَيَجْعَلُكُمْ : اور تمہیں بناتا ہے خُلَفَآءَ : نائب (جمع) الْاَرْضِ : زمین ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ قَلِيْلًا : تھوڑے مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو
اَمَّنْ [ یا وہ (بہتر ہے) جو ] يُّجِيْبُ [ (دعا) قبول کرتا ہے ] الْمُضْطَرَّ [ مجبور کئے ہوئے کی ] اِذَا [ جب بھی ] دَعَاهُ [ وہ پکارے اس کو ] وَيَكْشِفُ [ اور وہ دور کرتا ہے ] السُّوْۗءَ [ برائی کو ] وَيَجْعَلُكُمْ [ اور بناتا ہے تم لوگوں کو ] خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ۭ [ زمین کا (یعنی میں) خلیفہ ] ءَ [ کیا ] اِلٰهٌ [ کوئی الٰہ ہے ] مَّعَ اللّٰهِ ۭ[ اللہ کے ساتھ ] قَلِيْلًا مَّا [ بہت ہی تھوڑی ] تَذَكَّرُوْنَ [ تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو ] نوٹ۔ 1: مضطر وہ شخص ہے جو سب دنیا کے سہاروں سے مایوس ہوکر خالص اللہ تعالیٰ ہی کو فریاد رس سمجھ کر اس کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مضطر کی دعا قبول کرنے کا ذمہ لے لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سہاروں سے منقطع ہوکر، صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز سمجھ کردیا کرنا سرمائی اخلاص ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اخلاص کا بڑا درجہ ہے۔ وہ جس کسی بندے میں پایا جائے، وہ مومن ہو یا کافر، متقی ہو یا فاسق وفاجر، اس کے اخلاص کی برکت سے رحمت حق اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں کافروں کا حال ذکر فرمایا کہ یہ لوگ جب دریا میں ہوتے ہیں اور کشتی موجوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے اس وقت یہ لوگ (سارے دیوی و یوتا بھول کر) پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرکے خشکی پر لے آتا ہے تو یہ پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ ایک مظلوم کی دعا ، دوسرے مسافر کی دعا، تیسرے باپ کی جو اپنی اولاد کے لئے بدعا کرے۔ ان تینوں دعاؤں میں بھی وہی صورت ہے جو دعائے مضطر میں ہے کہ دنیا کے سہاروں اور مددگاروں سے مایوس ہوکر خالص اللہ کو پکارتے ہیں۔ اگر کسی مضطر یا مظلوم یا مسافر وغیرہ کو کبھی یہ محسوس ہو کہ اس کی دعا مقبول نہیں ہوئی تو بدگمان اور مایوس نہ ہو۔ بعض اوقات دعا قبول تو ہوجاتی ہے مگر کسی مصلحت ربانی سے اس کا ظہور دیر میں ہوتا ہے۔ یا پھر وہ اپنے نفس کو ٹٹولے کہ اس کے اخلاص اور توجہ الی اللہ میں کمی کوتاہی رہی ہے۔ (معارف القرآن) اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی کسی تکلیف یا پریشانی پر Magnifying Glass لگا کر خود کو مضطر سمجھ بیٹھتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہوتا ہے کہ وہ مضطر نہیں ہے۔ (مرتب) کسی حقیقی مضطر کی فریاد رسی اگر بروقت نہیں ہوتی تو کسی دوسرے زیادہ موزوں تر وقت کے لئے اٹھا رکھی جاتی ہے۔ اور اگر اس شکل میں نہیں ہوتی جس شکل میں وہ چاہتا ہے تو اس سے مختلف اور بہتر شکل میں پوری ہوتی ہے۔ اور اگر اس دنیا میں نہیں ہوتی تو وہ آخرت میں اس کے لئے موجب اجر ہوگی۔ (تدبر القرآن)
Top