Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 62
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون يُّجِيْبُ : قبول کرتا ہے الْمُضْطَرَّ : بیقرار اِذَا : جب دَعَاهُ : وہ اسے پکارتا ہے وَيَكْشِفُ : اور دور کرتا ہے السُّوْٓءَ : برائی وَيَجْعَلُكُمْ : اور تمہیں بناتا ہے خُلَفَآءَ : نائب (جمع) الْاَرْضِ : زمین ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ قَلِيْلًا : تھوڑے مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
کون ہے جو بے قرار کی دُعا سُنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟76 اور (کون ہے جو)تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟77 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا)ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو
سورة النمل 76 مشرکین عرب خود اس بات کو جانتے اور مانتے تھے کہ مصیبت کو ٹالنے والا حقیقت میں اللہ ہی ہے چناچہ قرآن مجید جگہ جگہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ جب تم پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو تم خدا ہی سے فریاد کرتے ہو، مگر جب وہ وقت ٹل جاتا ہے تو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، الانعام، حواشی 29۔ 41، جلد دوم یونس آیات 21۔ 22۔ حاشیہ 31۔ النحل حاشیہ 46، بنی اسرائیل حاشیہ 84، اور یہ بات صرف مشرکین عرب ہی تک محدود نہیں ہے۔ دنیا بھر کے مشرکین کا بالعموم یہی حال ہے، حتی کہ روس کے منکرین خدا جنہوں نے خدا پرستی کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلا رکھی ہے، ان پر بھی جب گزشتہ جنگ عظیم میں جرمن فوجوں کا نرغہ سخت ہوگیا تو انہیں خدا کو پکارنے کی ضرورت محسوس ہوگئی تھی۔ سورة النمل 77 اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور ایک قوم کے بعد دوسری قوم اٹھاتا ہے دوسرے یہ کہ تم کو زمین میں تصرف اور فرمانروائی کے اختیارات عطا کرتا ہے۔
Top