Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 34
قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗۤ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ
قَالَ : فرعون نے کہا لِلْمَلَاِ : سرداروں سے حَوْلَهٗٓ : اپنے گرد اِنَّ ھٰذَا : بیشک یہ لَسٰحِرٌ : جادوگر عَلِيْمٌ : دانا، ماہر
کیا ( فرعون نے اپنے سرداروں سے جو اس کے ارد گرد تھے کہ بیشک یہ شخص البتہ جادوگر ہے علم والا
ربط آیات گزشتہ آیات میں بیان ہوچکا ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) نے فرعون کے دربار میں پہنچ کر اللہ کا پیغام پہنچایا اور کہا کہ یہ رب العالمین کی طرف بھیجے ہوئے ہیں اس نے متکبر انہ انداز میں سوال کیا کہ رب العالمین کیا ہوتا ہے ؟ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات بیان کیں اور اس کی پہچان کی نشانیاں بتلائیں کہ رب العالمین وہ ہے جو ارض و سماکا پرورش کنندہ ہے اور جس نے تمہیں ہ تمہارے آبائو اجداد کو بھی پیدا کیا ہے۔ مشرق و مغرب کی تمام اشیاء بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ اس فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکی دی کہ اگر تم نے میرے سوا کسی دوسرے کو الٰہ تسلیم کیا تو میں تمہیں قید میں ڈال دوں گا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر میں کوئی کھلی نشانی پیش کروں تو کیا تم پھر بھی اپنی قبیح حرکت سے باز نہیں آئو گے ؟ فرعون کہے لگا ۔ دکھلائو تم کون سی نشانی پیش کرنا چاہتے ہو ، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دو نشانیاں پیش کیں۔ اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینکا تو وہ ایک بڑا اژدھا بن گئی جسے دیکھ کر سارے دربار میں بمع فرعون خوفزدہ ہوگئے ۔ آپ نے دوسری نشانی یہ پیش کی کہ اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا کر نکالا تو وہسورج کی طرح چمکدار نظر آنے لگا ۔ یہ واضح نشانیاں دیکھ کر فرعون اور اس کے حواری سمجھ گئے کہ یہ شخص سچا ہے مگر اپنے ظلم وتعدی کی بناء پر انہوں نے آپ پر ایمان لانے سے انکار کردیا ۔ فرعون کا دربایوں سے مشورہ فرعون کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ اس کے حواری درباری کہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کے معترف نہ ہوجائیں ۔ چناچہ اس نے ان کو موسیٰ (علیہ السلام) سے بد ظن کرنے کے لیے ایک تدبیر سوچی اور قال للملا حچولہ ان ھذا لسحر علیم اور اپنے ارد گرد کے حوارلوں سے کہنے لگا کہ یہ ( موسیٰ علیہ السلام) تو پڑھا لکھا جادوگر ہے ۔ فرعون کی یہ افتراء پردازی کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ کافروں ، مشرکوں اور جباروں کو ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب وہ ابنیاء (علیہم السلام) کے پیش کردہ معجزات سے لا جواب ہوجاتے ہیں تو پھر اسے جادو کہہ کر ہی رد کرتے ہیں ۔ فرعون نے بھی یہی حربہ استعمال کیا اور اپنے مصاحبین سے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی پیش کردہ نشانیاں بہت بڑا جادو ہے۔ یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحرہ یہ شخص اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہاری سر زمین سے نکال باہر کرنا اور تمہارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔ ان حالات میں فما ذاتا مرون بتلا تم مجھے کیا مشورہ دیتے ہو ۔ ہمیں اپنے ملک کی کس طرح حفاظت کرنی چاہئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نبی کسی کا ملک یا حکومت غضب نہیں کرنا چاہتے ۔ انہیں سلطنت کی کوئی نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کی زمین پر اصلاح کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اصلاح میں دونوں چیزیں آتی ہیں ، یعنی عقیدے کی درستگی اور امن وامان کا قیام۔ اللہ کے ہر نبی نے انہی دو چیزوں کو اپنی تبلیغ کا خاص موضوع بنایا ۔ مثال کے طور پر شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا یقوم عبدو للہ ما لکم من نہ غیرہ (ہود : 48) اے میری قوم کے لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو کہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ، نیز عام اصلاح کے متعلق فرمایا ان ارید الا الا صلاح ما استطعت ( ھود : 88) میں تو حسب استطاعت تمہاری اصلاح چاہتا ہوں ۔ زمین کو کفر و شرک اور فتنہ و فساد سے پاک کرنا چاہتا ہوں ، میری کوئی ذاتی غرض نہیں ہے ۔ میں کسی کا مال و دولت یا حکومت و اقتدار نہیں چھیننا چاہتا بلکہ خدا کی زمین پر خدا کے حکم سے اصلاح چاہتا ہوں۔ جادو کے ذریعہ مقابلے فرعون کے دربار یوں نے جب اس کی بات سنی تو کہنے لگے کہ اس معاملہ میں جلدبازی سے کام نہیں لینا بلکہ اس معاملے کو حکمت کے ساتھ طے کرنا چاہئے قانوا ارجہ واخاہ کہنے لگے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کو مہلت دے دیں یعنی ان کے خلاف کوئی فوری کارروائی کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ سارا معاملہ ہی بگڑ جائے ۔ لہٰذا احسن طریقہ یہ ہے وابعث فی المدائن حشرین آپ مختلف شہروں میں جادوگروں کو اکٹھا کرنے والے بھیج دیں مطلب یہ کہ ملک کے بڑے بیے شہروں میں آدمی بھیج کر ماہر جادوگروں کی خدمات حاصل کریں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ وہی کرسکیں گے تمہارے بھیجے ہوئے ایلچی یاتوک بکل سحار علیم تمہارے پاس بڑے بڑے علم والے جادوگرلے آئیں گے۔ سحار مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ عالم فاضل جادوگرآ جائیں گے۔ فرعون نے اپنے درباریوں کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے عمال مختلف شہروں میں دوڑا دیئے جو ماہر ترین جادو گروں کو اکٹھا کر کے لے آئیں ۔ فجمع السحرۃ لمیقات یوم معلوم چناچہ ایک معلوم دن کے وعدے پر جادوگر اکٹھے ہوگئے جادوگروں کے اجتماع کا ایک دن مقرر کردیا گیا کہ فلاں دن تمام کے تمام جادوگر فلاں جگہ پر اکٹھے ہوجائیں ۔ تفسیری روایات میں آتا ہے کہ فرعونیوں کے میلے والے دن جادوگروں کو اکٹھا کیا گیا ۔ اس دن بہت سے لوگ جشن منانے کے لیے ویسے ہی اکٹھے ہوتے تھے لہٰذا اس دن سب کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ سورة طہٰ میں ہے قال موعد کم یوم الزینۃ وان یحشر الناس ضحی ( آیت : 95) وہ وعدے کا دن ان کی زیب وزینت اور جشن کا دن تھا اور لوگوں کو چاہشت یعنی دوپہر کے وقت یہ مقابلہ دیکھنے کی دعوت دی گئی ۔ چناچہ و قیل الناس ھل کنتم تجتبعون اور عام لوگوں سے بھی کہا گیا کہ فلاں دن اور فلاں وقت پر اکٹھے ہو کر جادوگروں کا مقابلہ دیکھو ۔ ساتھ یہ اعلان بھی کردیا لعلنا نتبع السحرۃ ان کانوا ھم الغلبین شاید کہ ہم ان بڑے بڑے جادوگروں کا اتباع کریں اگر وہ غالب آجائیں ۔ مطلب یہ تھا کہ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) ہمارا دین ، عقیدہ اور پورا نظام سلطنت تبدیل کردینا چاہتے ہیں ۔ اگر ہمارے جادوگروں نے ان دونوں کو شکست دے دی تو پھر ہم اپنے موجودہ طریقے پر قائم رہتے ہوئے انہی کی پیروی کرتے رہیں گے اور ہمیں اپنا دین تبدیل کرنا پڑے گا ۔ تفسیری روایات میں آتا ہے کہ مقررہ دن پر ہزاروں کی تعداد میں جادوگر اکٹھے کیے گئے فلما جاء السحرۃ قالوا نفرعون جب وہ سارے کے سارے فرعون کے دربار میں اکٹھے ہوگئے تو اس سے کہنے لگے ائن لنا لا جرا ان کنا نحن الغنبین کیا ہمارے لیے کچھ مزدوری بھی ہوگی ۔ اگر ہم موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے جادوگر تو اسی لیے آئے تھے کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ہمیں انعام و اکرام ملے گا ۔ ہماری عزت افزائی ہوگی اور اس طرح ہمیں ملک بھر میں شہرت حاصل ہوگی ۔ جادوگروں اور انبیاء (علیہم السلام) میں یہی تو بنیادی فرق ہے ۔ جادوگروں کے مال و دولت اور عزت و حشمت کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ جب کہ اللہ کے نبیوں کا یہ اعلان ہوتا ہے وما اسئلکم علیہ ان جری الا علی رب العالمین ( الشعرائ : 51) اے لوگو ! میں دعوت حق کا تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ، کیوکنہ میرا اجر تو رب العالمین کے پاس ہے ، میں اسی کے حکم کی بجا آوری کر رہا ہوں اور وہی مجھے اس کا صلہ بھی عطا کرے گا ۔ ہر نبی نے یہی کہا کہ میری خدمت بےلوث ہے ابلغکم رسلت ربی ونصح بلمے ( الاعراف : 26) میں اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچا رہا ہوں اور تمہیں نصیحت کر رہا ہوں ۔ مجھے تمہاری خیر خواہی مطلوب ہے ۔ لہٰذا میری بات کی طرف توجہ کرو۔ جادو کا فتنہ جادوگری بڑا رذیل قسم کا فن ہے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اعلیٰ درجے کا جادو و کفر اور شرک پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ میں موجود ہے کہ جو دو آدمی جادو سکھاتے تھے وہ لوگوں پر واضح کردیتے تھے انما نحن فتند فلا تکبر ( البقرہ : 201) کہ ہم تو آزمائش میں مبتلا ہیں جادو کر کے تم کفر نہ کر ، جادو میں ایسا کلام پڑھنا پڑھتا ہے اور ایسی حرکات و سکنات اور اعمال کرنا پڑتے ہیں جن سے کفر لازم آتا ہے۔ اسی لیے اعلیٰ درجے کا جادوگر کفر اور شرک کا مرتکب ہوگا ۔ البتہ جادو کم ا ز کم درجہ بھی بدعت کے ارتکاب سے کم نہیں ہے اور اس میں بھی فسق و فجور اور گناہ پایا جاتا ہے۔ جادو کا شعبہ غیر نافع یا مضر علم میں شمار کیا گیا ہے یہ دنیا میں تو کسی حد تک مفید ہو سکتا ہے مگر آخرت کے اعتبار سے سخت مضر ہے اور انسان کو جہنم رسید کر کے چھوڑتا ہے۔ نجوم کے ذریعہ غیب کی باتیں معلوم کرنے کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ بھی سحر ہی کا ایک شعبہ ہے۔ اس میں بھی جادوگروں کی طرح درج ذیل حرکتیں کرنا پڑتی ہیں ۔ کہیں مردوں کا گوشت ، ہڈیاں یا مال حاصل کرنا پڑتے ہیں ، کہیں زندہ انسانوں کو قتل کر کے ان کا خون حاصل کیا جاتا ہے کہیں قبر یا …کی مٹی یا راکھ حاصل کی جاتی ہے۔ یہ سب شیطانی حرکات ہوتی ہیں جو شخص دنیا کی کمائی کے لیے اختیار کی ہیں ۔ حضور ﷺ 1 ؎ نے فرمایا حد الساحر ضربۃ بالسیف جادوگرجو جادو کے ذریعے لوگوں کی جانیں تلف کرتا ہے۔ اس کی سزا سزائے موت ہے ۔ تلوار کے ساتھ اس کا سر قلم کرو اور اگر سحر کی وجہ سے کوئی جان تو ضائع نہیں ہوئی بلکہ کم تر نقصان ہوا ہے تو حاکم مقدمے کی نوعیت کے اعتبار سے قید و بند کی سزا بھی دے سکتا ہے۔ بہر حال جادوگری ، ٹونے ٹوٹکے تعویز گنڈے جن کے ذریعے مخلوق خدا کو نقصان پہنچایا جائے ۔ صریح حرا ر اور شدید گناہ کا کام ہے۔ انعام و اکرام کا وعدہ بات یہ ہو رہی تھی کہ جادوگروں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ہمیں کچھ معاوضہ بھی ملے گا یا نہیں ۔ اس کے جواب میں فرعون نے کہا قال نعم ہاں ، تمہیں نہ صرف معقول معاوضہ ملے گا بلکہ وانکم اذا لمن المقربین تم میرے مقربوں میں سے ہو جائو گے تم کرینی نشین ہو گے۔ مجلس شوریٰ کے ممبر بن جائو گے یا تمہیں فلاں خطاب مل جائے گا ۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہاں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس دور میں نجومیوں ، ساحروں اور کاہنوں کو بھی وہی حیثیت حاصل تھی جو آج کے دور میں بڑے بڑے ڈاکٹروں ، انجینئروں اور سائنس دانوں کو حاصل ہے ۔ آج کے زمانے میں ہر کام کی سکی میں ماہرین ہی ملکی سطح پر بناتے اور ان پر عملدرآمد کراتے ہیں ۔ اسی طرح فرعونی دور میں یہ کام بڑے بڑے ساحروں سے لیا جاتا تھا۔ وہ اپنے جادو کے زور پر جس چیز کی نشاندہی کردیتے تھے ۔ حکومتی سطح پر اسی کے مطابق عمل کیا جاتا تھا۔ آج حکومت کے موجودہ مشیر بڑی بڑی مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ تو اس زمانے میں جادوگروں کی چاندی تھی۔ جادوگروں کا کرتب جب موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے مقابلے میں فرعون ، تمام جادوگر اور عام لوگ جمع ہوگئے تو مقابلے کی تیاری ہوگئی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے 1 ؎ ترمذی ص 032 ( فیاض) تو جادوگروں کے سامنے نصیحت کی اور فرمایا ویلکم لا نفتر و علی اللہ کذبا (طہٰ : 06) تمہاری ہلاکت ہو ، خدا تعالیٰ پر افترا اور نہ باندھو ، جادو جیسا غلط کام کر کے اپنی عاقبت خراب نہ کرو اور اس سے باز آ جائو ۔ اس نصیحت آموز بات سے جادوگروں کے دل ہل گئے مگر فرعون کے خوف سے انہوں نے مقابلہ کا چیلنج دے دیا ۔ چناچہ قال لھم موسیٰ القواما انتم ملقون موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا چیلنج قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ ڈالو جو کچھ تم ڈالناچاہتے ہو یعنی جادو کا جو کرتب تم دکھانا چاہتے ہو ۔ اس میں پہل کرو اور اس عام مجمع کے سامنے اپنے کارکردگی ظاہر کرو فاتقو حبا لھم و عصیبھم پس ڈالیں انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں جادوگروں نے اپنا بہترین کرتب پیش کیا ۔ سورة الاعراف میں ہے۔ وجاء وابسحر عظیم ( آیت : 611) کہ جادوگرو بہت بڑا جادو لانے تفسیری روایات میں آتا ہے کہ ملک بھر سے پندرہ سو جادوگرو اکٹھے کیے گئے اپنا کرتب پیش کر کے جادوگروں نے نعرہ وقالو بعزۃ فرعون کہنے لگے ” فرعون کی جے “ گویا انہوں نے زبانی طور پر مرعوب کرنے کے لیے فرعون کی فتح مندی کا نعرہ بھی بلند کیا ۔ اسی قسم کا نعرہ میدان احد میں ابو سفیان سے بھی لگایا تھا ۔ جب مسلمانوں کو وقتی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ابو سفیان نے پہاڑ پر کھڑے ہو کر کہا اعل ھبل یعنی ھبل بت کی جئے اس کے جواب میں حضور ﷺ نے یہ نعرہ مارنے کا حکم دیا اللہ اعلی واجل یعنی اللہ تعالیٰ ہی مند و برتر ہے۔ اس مقام پر یہ تفصیل موجود نہیں ہے کہ جادوگروں کی طرف سے رسیاں اور لاٹھیاں پھینکنے کے بعد کیا ہوا ۔ البتہ سورة طہٰ میں موجود ہے کہ جب جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھیکنیں یخیل الیہ من سحر ھم انھا السعی ( آیت : 66) تو موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں ایسا آیا گویا کہ وہ میدان میں ادھر ادھر دوڑ رہی ہیں ۔ وہ رسیاں اور لاٹھیاں چھوٹے چھوٹے سانپ بن کر دوڑتے ہوئے نظر آتے تھے ۔ اس شعبدہ بازی پر جادوگروں نے فرعون کی قسم اٹھا کر کہا انا سخن الغلبون بیشک ہم ہی غالب آئیں گے ۔ انہوں نے اپنے فن کی پختگی کی بناء پر اپنی کامیابی کی پیشگی دعویٰ کردیا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے جواب جادوگروں کا کرتب دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں بھی قدرے خوف پیدا ہوا کہ ممکن ہے کہ یہ لوگ جادو اور معجزے میں فرق نہ کرسکیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی اور فرمایا وتخف انک انت الاعلی ( طہٰ : 16) کہ ڈرو نہیں بیشک تم ہی غالب رہو گے۔ خدا تعالیٰ تمہیں بلندی عطا فرمائے گا ۔ اب پورے میدان کی نظریں موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لگی ہوئی تھیں کہ وہ جادوگروں کے کرتب کا جواب کس طرح دیتے ہیں ۔ فاتقی موسیٰ عصا پس موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی لاٹھی پھینک دی جونہی وہ زمین پر پی تو وہ بہت بڑا اژدھا نظر آنے لگا ۔ فاذا ھی تلقف ما فکون پس اچانک وہ سب نگل گیا جو کچھ جادوگروں نے بنایا تھا ۔ ان کے بنائے ہوئے چھوٹے چھوٹے سانپ موسیٰ (علیہ السلام) کا بڑا اژدھا کھا گیا یہ دیکھ کر تمام لوگ خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگے حتی ٰکہ فرعون کا پیشاب بھی خطا ہوگیا اور اس طرح جادوگروں کا بنایا ہوا سا را کھیل بگڑ گیا اور و ہ مغلوب ہوگیا ۔ جادو گروں کا ایمان لانا جب جادو گروں نے یہ ماجرا دیکھا فالقی لسجدتا سجدین تو وہ سب سجدہ میں گر پڑے اور انہوں نے اقرار کیا قالوا امنا برب العلمین کہنے لگے ہم رب العالمین پر ایمان لائے ۔ وہ پروردگار ہے رب موسیٰ و ہارون جو موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا بھی پروردگار ہے۔ جادوگر سمجھ چکے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اللہ کے سچے نبی ہیں اور ان کا کارنامہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ ہے ۔ یہ کسی انسانی بس کا کام نہیں ، لہٰذا اس کا مقابلہ ناممکن ہے ۔ بہر حال جادوگروں میں جہت ہی نہ ہری کہ اس معجزے کے مقابلہ میں کوئی دوہرا غبار وہ لاسکتے۔ فرعون کی برہمگی جب جادوگر ایمان لے آئے تو فرعون سخت سٹپٹایا اور اب وہ جادوگروں کو خطاب کر کے کہنے لگا۔۔۔ قال امنتم لہ قبل ان اذن لکم کیا تم اس پر ایمان لے آئے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا ؟ تم میری رغبت ہو اور تمہاری زندگی میرے رحم و کرم پر ہے ۔ تم کیسے ایمان لے آئے ہو ۔ کہنے لگا ۔ اب میں سمجھ گیا ہوں ۔ دراصل تم سب ایک ہی ہو انہ لکبیر کم لذی علمک السحر دراصل موسیٰ (علیہ السلام) تمہارا بڑا یعنی تمہارا استاد جادوگر ہے جس نے تمہیں سارا جادو سکھایا ہے۔ یہ جو کچھ ہوا ہے تمہاری ملی بھگت سے ہوا ہے فلسوف تعلمون پس عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ میں تم سب کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں ۔ یاد رکھو لا قطعن ایدیکم وارجلکم من خلاف میں تمہارے ہاتھ پائوں الٹے سیدھے کاٹ دوں گا جیسا کہ ڈاکوئوں کو سزا دی جاتی ہے۔ ولا سلبنکم جمعین اور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا ۔ ایسی سخت سزادوں گا۔ ایمان پر استقامت اسے جواب میں جادوگروں نے کہا قالو الاضیر کوئی ڈر نہیں ۔ اب ہم خوف کی حدود سے نکل چکے ہیں ۔ تاریج میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جو لوگ کفر میں شدید تھے جب ان میں تغیر آیا تو وہ ایمان میں بھی درجہ کمال تک پہنچے اور اللہ کے مقربین میں شامل ہوگئے۔ فرعون تو انہیں اپنا مقرب بنانا چاہتا تھا۔ مگر اس کے بجائے اللہ نے انہیں اپنا مقرب بنا لیا ۔ کہنے لگے انا الی ربنا منقلبون بیشک ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ ابھ تمہارے ہاتھوں شہادت کا جام پی لیں یا کچھ دیر کے بعد طبعی موت سے ہم کنارہ ہوں ۔ ہم ایمان کی دولت لے کر اس دنیا سے جائیں گے انہوں نے یہ بھی کہا ۔ انا نطمع ان یغفرلنا ربنا خصینا ہمیں ایسا ہے کہ ہمارا پروردگار ہماری سابقہ غلطیوں کو معاف فرمادے گا ۔ ان کنا ول المومنین اس وجہ سے کہ ہم سب سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرلی ہے اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ایمان پر ثابت قدم ہوگئے ہیں ، لہٰذا ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کا یقین ہوگیا ۔ سورة طہٰ میں ہے کہ جادوگروں نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم پر ہدایت واضح ہوچکی ہے اور ہم اس پر تجھے ترجیح نہیں دے سکتے فاقض ما انت قاض انما تقضی ھذہ الحیو 1 الدنیا (آیت : 27) تو جو چاہے فیصلہ کرے۔ تیرا فیصلہ تو اسی دنیا تک محدود ہوگا تو زیادہ سے زیادہ ہماری یہ فانی زندگی ہی ختم کرسکتا ہے تو جو چاہے کرے۔ اب ہم ایمان کا سودا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد کا واقعہ قرآن نے بیان نہیں کیا کہ فرعون نے جادوگروں کے ساتھ فی الحقیقت کیا سلوک کیا ۔ مفسرین کہتے ہیں کہ فرعون مسرف آدمی تھا ، اس نے اپنے فیصلے ضر رو عملدرآمد کیا ہوگا اور جادوگروں کو یقینا سزا دی ہوگی ۔ اس کے بعد موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) چالیس سال تک مصر میں مقیم رہے اور وقتاً فوقتاً خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے ۔ ساتھ ساتھ فرعونیوں کے مظالم بھی برداشت کرتے رہے جیسا کہ سورة اعراف میں تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے۔
Top