Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 38
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ١ۚ قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً١ۚ اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ
ھُنَالِكَ : وہیں دَعَا : دعا کی زَكَرِيَّا : زکریا رَبَّهٗ : اپنا رب قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب ھَبْ لِيْ : عطا کر مجھے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس ذُرِّيَّةً : اولاد طَيِّبَةً : پاک اِنَّكَ : بیشک تو سَمِيْعُ : سننے والا الدُّعَآءِ : دعا
(بس) وہیں زکریا (علیہ السلام) اپنے پروردگار سے دعا کرنے لگے،101 ۔ عرض کی اے میرے پروردگار مجھے اپنے پاس سے کوئی پاکیزہ اولاد عطا کر،102 ۔ بیشک تو دعا کا (بڑا) سننے والا ہے،103 ۔
101 ۔ (قدرت الہی کے تازہ مشاہدہ سے متاثر ہوکر) (آیت) ” ھنا “۔ کا دوسرا ترجمہ (وہیں) کے علاوہ (معا) بھی ہوسکتا ہے۔ ہنا ظرفیہ کے لیے ہے۔ اور اس میں ظرف مکان اور ظرف زمان دونوں شامل ہیں۔ یعنی اسی جگہ بھی اور اسی وقت بھی۔ اسم یشاربہ للمکان القریب وقد یشاربہ للزمان اتساعا (جمل) گو اصلی مفہوم ظرف مکان ہی کا ہے۔ یستعمل للزمان والمکان واصلہ للمکان (قرطبی) ای فی ذلک المکان اوفی ذلک الوقت فقد یستعارھنا وثم وحیث للزمان (کشاف) ھنا ظرف مکان وجوزان یراد بھا الزمان مجازا (روح) (آیت) ” ھنالک دعا “۔ آیت سے استدلال مکان مبارک میں دعا کی مقبولیت پر کیا گیا ہے۔ علی ھذا وقت مبارک میں بھی دعا کی مقبولیت پر حضرت زکریا (علیہ السلام) کو جب یہ مشاہدہ ہوگیا کہ یہ مقام خرق عادت کے صدور کا ہے تو آپ بھی وہیں دعا کرنے لگے۔ فی قولہ ھنالک دعا دلالۃ علی ان یتوفی العبد بدعاۂ الامکنۃ المبارکۃ والازمنۃ المشرفۃ (بحر) 102 ۔ (جو میرے سلسلہ روحانی کو آگے چلا سکے) (آیت) ” ھب لی من لدنک “۔ مجھے بھی اپنی عنایت سے اسی طرح دے جیسے کہ والدہ مریم (علیہ السلام) کو مریم (علیہ السلام) عنایت ہوچکی ہیں۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا سن زیادہ ہوچکا تھا اور بیوی صاحبہ بھی عقیم سمجھ لی گئی تھیں، ایک خارق عادت کو دیکھ کر آپ کا ذہن معا اسی طرف زور شور کے ساتھ منتقل ہوا کہ جو خدا اس پر قادر ہے کہ بلاسباب ظاہری یہاں تروتازہ میوے پہنچا دے، وہ یقیناً اس پر بھی قادر ہے کہ اس سن میں مجھے نعمت اولاد سے سرفراز کردے۔ (آیت) ” من لدنک “۔ یہ خبر صاف ظاہر کررہی ہے کہ دعا کرنے والے کی نظر اس عالم اسباب میں بھی اسباب سے کہیں زیادہ مسبب الاسباب پر ہے۔ (آیت) ” ذریۃ “۔ اولاد کی خواہش ایک امر طبعی ہے اور زہد کیا معنی کمال زہد کے بھی منافی نہیں۔ قرآن مجید نے بار بار پیغمبروں کی زبان سے اس قسم کی دعائیں نقل کرکے بتادیا کہ وہ مذاہب حقیقت سے کتنی دور ہیں جنہوں نے بیوی بچوں کو مطلق صورت میں جنجال قرار دیا ہے۔ ہماری شریعت حقہ میں اولاد کی خواہش تو سنت انبیاء وصدیقین بتائی گئی ہے اور صحیح بخاری میں تو مستقل عنوانات طلب ولد کے فضائل میں ہیں :۔ دلت ھذہ الایۃ علی طلب الولد وھی سنۃ المرسلین والصدیقین (قرطبی) وقد ترجم البخاری علی ھذا باب طلب الولد والاخبار فی ھذا المعنی کثیر ماتحث علی طلب الولد وتندب الیہ (قرطبی) (آیت) ” ذریۃ طیبۃ “۔ طیبہ کے اضافہ نے اسے صاف کردیا کہ اہل اللہ کی نظر آخرت پر بہرحال رہتی ہے اولاد کی خواہش میں بھی مطلق کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن حضرت زکریا (علیہ السلام) محض اولاد ہی نہیں چاہتے۔ اولاد صالح چاہتے ہیں جو ان کے بعد ان کے مشن تبلیغ توحید کو جاری رکھے، اللہ والوں کی نگاہ میں اخلاقی وروحانی فضائل بہر صورت مقدم رہتے ہیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ ایسے امور کے لیے دعا کرنا جو اسباب قریبہ سے ہٹ کر ہوں، آداب دعا کے منافی نہیں۔ 103 ۔ (اور بڑا قبول کرنے والا ہے) حق تعالیٰ کی اس صفت پر بار بار زور دینا مادی اور نیچری عقیدہ کے لوگوں کے رد میں ہے جو واقعات کو تمامتر اسباب ظاہری ہی کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اور ارادہ حق تعالیٰ کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں رکھتے۔ انجیل میں ہے کہ ” زکریا نام کا ایک کاہن تھا۔ اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبع تھا۔ اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع بانجھ تھی اور دونوں عمررسیدہ تھے “۔ (لوقا۔ 1:5 ۔ 7)
Top