Tafseer-e-Majidi - Faatir : 8
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا١ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۖ٘ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جس زُيِّنَ : آراستہ کیا گیا لَهٗ : اس کے لیے سُوْٓءُ عَمَلِهٖ : اس کا برا عمل فَرَاٰهُ : پھر اس نے دیکھا اسے حَسَنًا ۭ : اچھا فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ يُضِلُّ : گمراہ ٹھہراتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ڮ : جس کو وہ چاہتا ہے فَلَا تَذْهَبْ : پس نہ جاتی رہے نَفْسُكَ : تمہاری جان عَلَيْهِمْ : ان پر حَسَرٰتٍ ۭ : حسرت کر کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِمَا : اسے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
تو کیا وہ جسے اس کا عمل خوش نما کر رکھا گیا اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا (اور جو باطل کو باطل ہی سمجھا دونوں کہیں برابر ہوسکتے ہیں) ،13۔ سو اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ دکھا دیتا ہے،14۔ سو ان پر افسوس کرکے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے، بیشک اللہ ان کے کرتوتوں سے خوب واقف ہے،15۔
13۔ ترجمہ متن میں قوسین کے درمیان کا سارا فقرہ قرآن مجید میں محذوف ہے، اور ترجمہ میں اپنی طرف سے بڑھانا پڑے گا قرآن کے اسلوب بلاغت میں اس حذف وتقدیر کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔ حذف الجواب لدلالۃ (کشاف۔ بیضاوی) حذف ھذا الخبر لدلالۃ الکلام علیہ واقتضاء النظم الجلیل ایاہ (روح) عربی کے اسلوب بیان اور اردو کے انداز تحریر کے درمیان آسمان و زمین کا فرق بعض حیثیتوں سے ہے۔ اور انہیں میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عرب انشاء وخطابات میں محذوفات ومقدرات بکثرت آتے رہتے ہیں۔ (آیت) ” زین لہ سوٓء عملہ “۔ یعنی وہ گمراہی میں پڑگیا۔ ومعنی تزیین العمل والاضلال واحد (کشاف) قتادہ تابعی سے روایت ہے کہ یہ آیت فرقہ خوارج کے حق میں ہے کہ وہی لوگ مسلمانوں کا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں۔ دوسرے اہل کبائر، کبائر کو بہرحال جائز تو نہیں سمجھتے۔ قال قتادۃ منھم الخوارج الذین یستحلون دمآء المسلمین واموالھم فاما اھل الکبائر فلیسوا منھم لانھم لایستحلون الکبائر (معالم) 14۔ (حسب تقاضائے حکمت ومصالح تکوینی) ضلال وہدایت دونوں کا ترشح اس کی طرف سے بتقاضائے حکمت ہی ہوتا رہتا ہے۔ ایک کی آنکھوں پر گویا پٹی بندھ جاتی ہے اور اس کی عقل وفہم اندھی ہوجاتی ہے۔ اور دوسرے کی آنکھوں کھلی اور روشن رہتی ہیں اور اس کی عقل وفہم درست وقائم رہتی ہے۔ 15۔ (اور وہی ان سے نپٹ لینے کے لیے بالکل کافی ہے) (آیت) ” فلا ...... حسرت “۔ اس سے اس پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک میں کس درجہ درد تھا اور آپ ﷺ کس کس طرح منکروں کی ہدایت کے لیے بےقرار رہا کرتے تھے۔
Top