Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 149
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا
اِنْ تُبْدُوْا : اگر تم کھلم کھلا کرو خَيْرًا : کوئی بھلائی اَوْ تُخْفُوْهُ : یا اسے چھپاؤ اَوْ تَعْفُوْا : یا معاف کردو عَنْ : سے سُوْٓءٍ : برائی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا قَدِيْرًا : قدرت والا
تم کسی بھلائی کو ظاہر کرو یا چھپاؤ یا کسی برائی سے درگزر کرجاؤ،380 ۔ تو اللہ تو (بہرصورت) بڑا معاف کرنے والا ہے بڑا قدرت والا ہے،381 ۔
380 ۔ (جوبہر صورت افضل اور اولی ہے) انسان اپنے نفس کو ٹٹولے تو نظر آئے کہ کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے یا اس پر مال خرچ کرنے سے کہیں زیادہ شاق نفس پر یہ گزرتا ہے کہ کوئی ہمیں دکھ پہنچائے اور ہم اس سے درگزر کرجائیں، اور انتقام نہ لیں۔ اس لیے فعل خیر سے الگ اور ممتاز کرکے اس وصف چشم پوشی اور عدم انتقام کو بیان کیا ہے۔ فندب الی العفو و رغب فیہ (قرطبی) 381 ۔ اخلاقی حیثیت سے یہ تین مرتبے الگ الگ ہیں۔ اور انہیں یہاں کیسی صحیح ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (آیت) ” ان تبدوا خیرا “ پہلا درجہ تو یہ ہے کہ انسان نے نیکی کی۔ ساتھ ہی وہ اس کا اظہار واعلان بھی کردیتا ہے۔ خلق سے داد لینے کی خواہش ایک حد تک طبعی ہے۔ ایک درجہ نیکی کا یہ بھی ہوا نیکی یہ بھی ہوئی مگر ہلکی قسم کی۔ مبتدی کی سطح کی۔ (آیت) ” اوتخفوہ “۔ اونچا مرتبہ یہ ہے کہ نیکی کرے، اور خلق سے داد وصلہ کی پرواہی نہ رکھے، بلکہ اسے خلق کے علم میں آنے ہی نہ دے اور مقصود اس سے تمامتر رضاء الہی ہی رکھے۔ (آیت) ” تعفوا عن سوٓء “۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ انسان کو ناگواریاں پیش آئیں، اور وہ انہیں نظر انداز کرجائے اور برائی کرنے والے سے بدلہ نہ لیاجائے، یہ نفس کے لیے بہت ہی شاق ہے۔ اور اس کا مرتبہ سلوک واخلاق کے منتہی ہی کو حاصل ہوتا ہے (آیت) ” عفوا “۔ اس صفت کو لا کر یہ یاد دلادیا کہ درگزر کی صفت تو صفات کمالیہ الہیہ میں سے ہے۔ کیا خوب ہو جو بندہ بھی اپنے کو اسی رنگ میں رنگ لین ! (آیت) ” قدیرا “۔ یہ لفظ لا کر ادھر اشارہ کردیا، کہ بندہ بیچارہ انتقام لے ہی کیا سکتا ہے۔ انتقام پر قدرت کامل تو اللہ ہی کو حاصل ہے۔ اور وہ اس کمال قدرت کے باوجود عفو و درگزر سے کام لیتا رہتا ہے۔ بندوں کو عفو و درگزر کی راہ پر لانے کا کتنا موثر وحکیمانہ طریقہ یہ ہے ! امام رازی (رح) جن کی نکتہ رسی قرآن فہمی میں قابل صد رشک ہے، یہاں پر خوب بات فرمائی ہے کہ آیت کے ان دومختصر سے فقروں میں سارا خلاصہ اخلاق و سلوک آگیا۔ دخل فی ھاتین الکلمتین جمیع انواع الخیر و اعمال البر (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ جس طرح پہلی آیت میں ضعفاء کی رعایت تھی، یہ آیت اہل ہمت کے مناسب حال ہین۔ اس میں مصلحت عروج الی القرب ہے۔
Top