Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 49
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ١ۚ اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا يٰٓاَيُّهَ السّٰحِرُ : اے جادوگر ادْعُ لَنَا : دعا کرو ہمارے لیے رَبَّكَ : اپنے رب سے بِمَا : بوجہ اس کے جو عَهِدَ عِنْدَكَ : اس نے عہد کیا تیرے پاس اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ : بیشک ہم البتہ ہدایت یافتہ ہیں
اور وہ بولے کہ اے جادوگر اپنے پروردگار سے ہمارے حق میں اس چیز کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے (اب) ہم ضرورراہ پر آجائیں گے،36۔
36۔ فرعون اور فرعونی گو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شدید مخالف اور عقیدۂ نبوت کے یکسر منکر تھے تاہم ایک زبردست عامل کی طرح آپ کو سحر وکہانت وغیرہ میں کامل سمجھتے اور آپ کی قوت تسخیر تکوینی کے پوری طرح قائل تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ دنیوی بلائیں اور مصیبتیں آپ کی وساطت سے آبھی سکتی ہیں اور دور بھی ہوسکتی ہیں۔ توریت میں اس موقع پر ہے :۔ ” تب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بلایا اور کہا کہ خداوند سے شفاعت کرو کہ مینڈکوں کو مجھ سے اور میری رعیت سے دفع کرے اور میں ان لوگوں کو جانے دوں گا تاکہ وہ خداوند کے لئے قربانی کریں۔ (خروج۔ 8: 8) ” اور فرعون بولا میں کہ میں تمہیں جانے دوں گا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے لئے بیانان میں قربانی کرو، لیکن تم بہت دور مت جاؤ۔ میرے لئے شفاعت کرو (8: 28) (آیت) ” یا یہ السحر “۔ اہل مصر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت اعجازی کے پوری طرح قائل تھے البتہ وہ اس کو آپ کی صداقت کی دلیل نہ سمجھتے اور نبوت و رسالت کا تو مسئلہ ہی سرے سے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور آپ کے لائے ہوئے تمام خوارق کو آپ کی زبردست قوت تسخیر تکوینی پر محمول کررہے تھے۔ (آیت) ” اننا لمھتدون “۔ یعنی اب ہم قائل ہوجائیں گے اور اس کے بعد وہی ماننے لگیں گے۔ جو آپ (علیہ السلام) ہم سے منوانا چاہتے ہیں۔
Top