Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 59
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا عَبْدٌ : مگر ایک بندہ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ : انعام کیا ہم نے اس پر وَجَعَلْنٰهُ : اور بنادیا ہم نے اس کو مَثَلًا : ایک مثال لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اسرائیل کے لیے
اصل یہ ہے کہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو،46۔ وہ تو بس ہمارے ایک بندہ تھے کہ ان پر ہم نے اپنا فضل کیا تھا اور انہیں بنی اسرائیل کے لئے ایک نمونہ بنایا تھا،47۔
46۔ یعنی حق کی طلب نہ رکھنے والے بلکہ صرف کج بحثی میں لگے رہنے والے، چناچہ اس مسئلہ میں بھی عیسائیوں کے عقیدہ کو خواہ مخواہ مسلمانوں پر چپیک دیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت واحترام میں بیشک مسلمان اور عیسائی متحد ہیں، لیکن بس اس کے آگے زمین و آسمان کا فرق ہے مسیحی ان کی معبودیت کے، الوہیت کے قائل ہیں، اسلام اس عقیدہ پر لعنت بھیجتا ہے۔ مشرکوں کی غباوت وجہالت ملاحظہ ہو کر عیسائیوں کی مزعومہ الوہیت ومعبودیت کو بطور استدلال مسلمانوں کے مقابہ میں پیش کررہے ہیں۔ لیکن قصور اس معاملہ میں سوفیصد مشرکین عرب کا ہی نہ تھا۔ اس لئے کہ مسیحیت جس طرح کہ وہ اس وقت عرب میں پھیلی ہوئی تھی، خود ہی خالص مسیحیت نہ تھی بلکہ مسیحیت اور شرک کی ایک ملی جلی صورت تھی۔ اور مسیح (علیہ السلام) کا شمار گویا عرب کے بیشمار دیوتاؤں میں سے بطور ایک نئے دیوتا کے ہونے لگا تھا ! نیویارک (امریکا) کے مشہور مسیحی سہ ماہی مسلم ورلڈ کے اکتوبر 1941 ء ؁ نمبر میں ایک مقالہ یونیورسٹی کالج کو رنڈ کے استاد ایف۔ وی۔ وینٹ (Winnete) کے قلم سے ہے اس میں وہ یمن وشام، عرب جنوب، عرب شمال کے قدیم کتبات کا جائزہ لے کر لکھتے ہیں کہ ” ہمیں جو مرقع نظر آتا ہے وہ مسیحیت اور جاہلیت کا مخلوطہ ہے۔ مسیح نے قدیم دیوتاؤں کو بےدخل نہیں کیا، ان کی فہرست میں خود مسیح کا ایک اضافہ ہوگیا۔ جانور مسیح کے نام پر بھینٹ چڑھائے جاتے تھے۔ ان سے دعائیں اسی طرح کی جاتی تھیں جیسے دوسرے دیوتاؤں سے۔ “ (صفحہ 53، صفحہ 54) 47۔ اسلام کا دعوی تو بس اسی قدر ہے۔ وہ تو مسیح کو صرف ایک عبد مقبول ومحترم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے اس عقیدہ پر کسی کے عقیدہ الوہیت ومعبودیت سے آخر کیا زد پڑ سکتی ہے ؟ اسلام میں بلند ترین مقام کمال یہی عبدیت کا مقام ہے۔ (آیت) ” مثلا لبنی اسرآئیل “۔ نمونہ سے مراد نمونہ قدرت بھی ہوسکتی ہے۔ (جس سے اشارہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی فوق العادۃ طریق ولادت کی طرف نکلتا ہے) اور یا یہ مراد ہو کہ وہ امت اسرائیلی کے لیے بہ طور نمونہ وقدوہ کے بھیجے گئے تھے۔
Top