Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور ہم ہی نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی،12 ۔ پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کے روبرو جھکو، سو (سب) جھکے بجز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا،13 ۔
12 ۔ یعنی پہلے تمہاری نوع کا سلسلہ قائم کرنے کو مادہ بنایا، پھر اس مادہ کو صورت بشری دی اور آدم (علیہ السلام) وجود میں آگئے۔ 13 ۔ (از راہ استکبار) (آیت) ” قلنا للمآئکۃ “۔ یہ حکم جب ملائکہ کو ملا، تو جو مخلوق (مثلا جن) ان سے ادنی تھی، اس کو تو یہ حکم بدرجہ اولی ملا، ملاحظہ ہو حواشی نمبر 123، نمبر 124، پ 1، سجدوا۔ سجدہ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس نماز والے سجدہ کی ہئیت متعارف ومخصوص کے ساتھ ہو، سجود کے لفظی معنی تو اضع وتذلل کے ہیں اور وہی یہاں مراد ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوپ 1، حاشیہ 125 ۔ (آیت) ” لادم “۔ ل، یہاں الی کا مرادف ہے۔ یعنی آدم (علیہ السلام) کی سمت میں (جیسے آج بھی کعبہ کی سمت میں ہوتا ہے) نہ کہ آدم (علیہ السلام) کو۔ ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 125، پ 1 ،۔ (آیت) ” ابلیس “۔ ایک ناری مخلوق یعنی جن تھا، جیسا کہ قرآن مجید میں تصریح کے ساتھ آیا ہے نہ کہ نوری مخلوق یا فرشتہ جیسا کہ عوام کا عقیدہ مسیحیت کے اثر سے ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 126، پ 1 ۔
Top