Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے اولاد آدم (علیہ السلام) ہر نماز کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور کھاؤ اور پیو لیکن اسراف سے کام نہ لو بیشک وہ (اللہ) مسرفوں کو پسند نہیں کرتا،42 ۔
42 ۔ (اس لیے اسراف کے قریب بھی نہ جاؤ) اسراف نام ہے صرف کرنے میں حد اعتدال سے تجاوز کرنے کا الاسراف ھو مجاوزۃ الحد فی الانفاق (جصاص) اور اندازۂ معتبر شرعی ہے اور اس کے بعد اندازۂ عقلی نہ کہ اندازۂ نفسانی یا جذباتی، اسی لیے (آیت) ” لاتسرفوا کے معنی یہ لیے گئے ہیں کہ کھانے پینے میں حدود سے تجاوز نہ کرو نہ کیفیت کے لحاظ سے نہ کمیت کے لحاظ سے۔ لا تسرفوا ای بالافراط فی الطعام والشراب کما ذھب الیہ کثیر (روح) (آیت) ” کلواواشربوا “۔ کے مطلق صورت میں آنے سے امام رازی (رح) نے یہ نکتہ خوب پیدا کیا ہے کہ مطعومات ومشروبات میں اصل حلت ہی ہے۔ صرف حرمت کے لیے کسی مستقل دلیل کی ضرورت ہے اور تقاضائے عقل بھی یہی ہے کہ اباحت کے لیے کسی مستقل دلیل کی ضرورت نہیں۔ یتناول جمیع المطعومات والمشروبات فوجب ان یکون الاصل فیھا ھو الحل فی کل الاوقات وفی کل المطعومات والمشروبات الاما خصہ الدلیل المنفصل والعقل ایضا مؤکد لہ لان الاصل فی المنافع الحل والا باحۃ (کبیر) (آیت) ” زینتکم “۔ یہاں زینت لباس یا لباس زینت کے معنی میں ہے۔ ای زیتکم و لباس زینتکم (کشاف) یعنی الثیاب قال مجاھد ما یواری عورتک (معالم) المراد من الزینۃ لبس الثیاب (کبیر) (آیت) ” عند کل مسجد “۔ مسجد یہاں نماز و طواف کے معنی میں ہے۔ ای کلما صلیتم اوطفتم (کشاف) ای طواف او صلاۃ والی ذلک ذھب مجاھد وابو الشیخ وغیرھما (روح) (آیت) ” خذوا زینتکم عند کل مسجد “۔ مشرکین عرب طواف کعبہ کے برہنہ ہو کر کرنے کے قائل تھے۔ وجوب اس کے برعکس کا مسلمانوں کو تعلیم ہورہا۔ روی عن ابن عباس ؓ و ابراہیم و مجاھد وطاؤس والزھری۔ ان المشرکین کانوا یطوفون بالبیت عراۃ (جصاص) مفسرتھانوی (رح) نے لکھا ہے کہ ستر پوشی تو دوسرے اوقات میں بھی واجب ہے، اس وقت کے ذکر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ اس وقت برہنہ ہوجایا کرتے تھے، نیز اس وقت وجوب اور زیادہ مؤکدہوتا ہے۔ فقہاء ومفسرین نے اس سے نماز میں ستر پوشی کی فرضیت پر استدلال کیا ہے۔ ھذہ الایۃ تدل علی فرض ستر العورۃ فی الصلوۃ (جصاص) یدل علی ان حکم الایۃ غیر مقصور علی الطواف وان المراد بھا الصلوۃ (جصاص) خذوازینتکم امر وظاھر الامر الوجوب فھذا یدل علی وجوب ستر العورۃ عند اقامۃ کل صلاۃ (کبیر) (آیت) ” انہ لا یحب المفسرفین “۔ اس کے تحت میں امام رازی (رح) نے یہ نکتہ خوب لکھا ہے کہ کوئی مکلف بندہ ایسا نہیں جو کسی حال میں ثواب و عقاب دونوں سے خالی ہو۔ اب جب ثواب کی اس سے نفی ہورہی ہے تو لازم ہے کہ وہ مستوجب عتاب ہو۔ لان معنی محبۃ اللہ تعالیٰ للعبد ایصالہ الثواب الیہ فعدم ھذہ المحبۃ عبارۃ عن عدم حصول الثواب ومتی لم یحصل الثواب فقد حصل العقاب لانعقاد الاجماع علی انہ لیس فی الوجود مکلف لایثاب ولا یعاقب (کبیر)
Top