Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 66
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اِلٰي : طرف مَدْيَنَ : مدین اَخَاهُمْ : ان کے بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : نہیں تمہارا مِّنْ : سے اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : ایک دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَوْفُوا : پس پورا کرو الْكَيْلَ : ناپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی اشیا وَلَا تُفْسِدُوْا : اور فساد نہ مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور مدین کی طرف (ہم نے) ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا) ،112 ۔ انہوں نے کہا اے میری قوم والو ! اللہ ہی کی پرستش کرو بجز اس کے تمہارا کوئی معبود نہیں اب تو تمہارے پاس کھلا نشان بھی تمہارے پروردگار کی طرف سے آچکا،113 ۔ سو تم ناپ اور تول پوری کیا کرو اور لوگوں کا نقصان ان کی چیزوں میں مت کیا کرو، ملک میں فساد نہ مچاؤ اس کی درستی کے بعد یہی تمہارے حق میں بہتر ہے، اگر تم ایمان والے ہو،114 ۔
112 ۔ ان پیغمبر شعیب (علیہ السلام) بن میکیل کا نام تو ریت میں کہیں توتیروآیا ہے۔ (مثلا خروج 3: 1 میں) اور کہیں حوباب (مثلا گنتی 10:29 میں) نسب نامہ ہماری تفسیروں میں یوں درج ہے۔ شعیب (علیہ السلام) بن میکیل بن یشجر بن مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) ۔ (آیت) ” مدین “۔ اس شہر کا محل وقوع بحراحمر کا ساحل عرب تھا۔ کوہ طور کے جنوب ومشرق میں شمالا جنوب عرض البلد 29 درجہ، 29 دقیقہ اور 27 درجہ 39 دقیقہ کے درمیان۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک زوجہ محترمہ بیوی قطورہ تھیں۔ انہی کے بطن سے ایک صاحبزادہ مدین نامی تھے۔ شہر جب آباد ہوا تو قدیم دستور کے مطابق انہی کے نام سے موسوم ہوا۔ 113 ۔ ممکن ہے کوئی خاص معجزہ مراد ہو، جس کی صراحت قرآن مجید میں نہیں۔ ای معجزۃ وان لم تذکر فی القران (مدارک) ای معجزۃ مشاھدۃ بصحۃ نبوتی (کشاف) یجب ان یکون المراد من البینۃ ھھنا المعجزۃ (کبیر) اور ممکن ہے پیغمبر کا نفس آنا ہی مراد ہو۔ وھو مجیء شعیب بالرسالۃ (قرطبی) 114 ۔ (اور میری تصدیق پر آمادہ ہو) (آیت) ” فاوفوالکیل والمیزان ولا تبخسوا الناس اشیآء ھم “۔ اہل مدین ایک تجارت پیشہ قوم تھی۔ ان کا اصلی فسق معاملات تجارت میں بدمعاملگی اور بددیانتی تھی، اسی لیے پیغمبر وقت بعد عام دعوت توحید کے، سب سے پہلا سبق تجارتی اخلاق کا دے رہا ہے۔ (آیت) ” اوفوالکیل “ کیل سے مراد آلہ کیل یعنی مکیال ہے یا وہ چیز جونا پی جائے۔ ارید بالکیل الۃ الکیل وھو المکیال اوسمی مایکال بہ بالکیل (کشاف) (آیت) ” ولا تفسدوافی الارض بعد اصلاحھا “۔ اصلاحی نظام یعنی شریعت خداوندی کو جزءا یاکلا قبول کرنے سے انکار کرنا، اور بندوں کے ادائے حقوق میں کمی کرتے رہنا یہ سب صورتیں فساد فی الارض ہی کی ہیں۔ (آیت) ” ولا تبخسوا “ کے اطلاق وعموم کے ماتحت خیانت و بددیانتی کی ہر صنف آگئی، چوری، ڈکیتی، رشوت غصب وغیرہا۔ المراد من البخص التنقیص بجمیع الوجوہ ویدخل فیہ المنع من الغصب والسرقۃ واخذالرشوۃ وقطع الطریق وانتزاع الاموال بطریق الحیل (کبیر) (آیت) ” ولا تبخسوا الناس اشیآء ھم “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ مدلول نص پر قیاس کرکے صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ جو اہل علم اپنے معاصرفضلاء کی تعظیم و توقیر کا حق واجب نہیں ادا کرتے وہ بھی اس آیت کی زد میں آجاتے ہیں۔ (آیت) ” ذلکم خیرلکم “۔ اشارہ ان پانچ چیزوں کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ یعنی دو چیزیں عقاید میں سے ایک اقرار توحید، دوسرے رسالت اور تین چیزیں اعمال میں سے، ایک شفقت علی خلق اللہ، دوسرے ترک، بخس، تیسرے ترک افساد (کبیر)
Top