Bayan-ul-Quran - Al-An'aam : 30
وَ لَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَا بِقَوْلِ : اور نہ ہی قول ہے كَاهِنٍ : کسی کا ہن قَلِيْلًا مَّا : کتنا تھوڑا تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑتے ہو
بس یہ لوگ تو قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر اچانک آ کھڑی ہو اور ان کو خبر تک نہ ہو
سب گروہ اس انتظار میں ہیں کہ قیامت آئے اور ان کا کام تمام کردے 66 ؎ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے انکار ہی نے ان کو اس حالت تک پہنچایا ہے اور آپ ﷺ کی تذکیر ونصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہورہا کیونکہ آپ ﷺ ان کو قیامت سے ڈراتے ہیں اور اس کو یہ سارے گروہ حقیقت میں نہیں مانتے اور اگر اقرار کرتے بھی ہیں تو وہ صرف رسمی اقرار ہے ورنہ ان لوگوں کی ہٹ دھرمی ایسی کیوں ہوتی بلکہ یہ تو آخرت کے لیے کچھ کمائی کرتے اور اس دنیا کی زندگی میں اس قدر نہ ریجھ جاتے لیکن یہ بات اپنی جگہ صحیح اور درست ہے کہ قیام قیامت تو یقینی ہے اگر کوئی اس کو تسلیم کرے گا تو بھی وہ آئے گی اور اگر کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا تب بھی وہ آئے گی اس لیے یہ ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ یہ لوگ اختلافات میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب ان کے ختم ہونے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اب ان کے اختلاف خود بخود ہی ختم ہوجائیں گے جب قبر کی مٹی ان کے منہ میں پڑے گی کیونکہ یہی ایک وہ چزت ہے جو ہر طرح کی خواہش اور ہر طرح کے جھگڑے کو ختم کردینے والی ہے اور بلاشبہ جب وہ دن آئے گا تو اچانک ہی ان پر آجائے گا کیونکہ وہ کسی انسان کے ساتھ مشورہ کرکے نہیں آتا بلکہ اچانک ہی آدھکتا ہے اور آواز نکل پڑتی ہے کہ آج فلاں کوچ کرگیا۔ بانگ برآید کہ فلاں نہ ماند اس طرح گویا نبی اعظم وآخر ﷺ کے لیے اور آپ ﷺ کے بعد کے سارے داعیوں کے لیے تنبیہ کی جارہی ہے کہ زیادہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ان کے اختلافات ختم ہونے کی مدت کوئی زیادہ بھی نہیں ہے اور ان کی داستان طولائی ختم ہوتے زیادہ دیر نہیں لگے گی کیونکہ ان کا حقیقی ساتھی ہر وقت ان کی تاک میں ہے اور امر الٰہی ہونے کی دیر ہے بلاشبہ ان کا سارا نشہ چند منٹ میں ہوا ہوجائے گا۔
Top