Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 66
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
هَلْ : نہیں يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے اِلَّا السَّاعَةَ : مگر قیامت کا اَنْ تَاْتِيَهُمْ : کہ آجائے ان کے پاس بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا : نہ يَشْعُرُوْنَ : شعور رکھتے ہوں
کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے اور انھیں خبر بھی نہ ہو
ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلاَّالسَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِیَھُمْ بَغْتَۃً وَّھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ۔ (الزخرف : 66) (کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے اور انھیں خبر بھی نہ ہو۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کو تسلی دی گئی ہے اور کفار سے اعراض کا حکم بھی۔ آپ کی تذکیر و دعوت کا زور جس طرح توحید کے حوالے سے تھا اسی طرح آپ بار بار قیامت کے تصور کو بھی دلوں میں اتارنے کی کوشش فرماتے تھے۔ لیکن سننے والوں کا حال یہ تھا کہ کبھی تو قیامت کا مذاق اڑاتے، کبھی اسے سوالات کی سان پر چڑھاتے اور کبھی ایسی بےنیازی کا ثبوت دیتے کہ گویا یہ کوئی قابل ذکر دن ہی نہیں۔ اولاً تو اس کے آنے کا امکان ہی نہیں اور اگر کسی نہ کسی حد تک اسے مان بھی لیا جائے تو یہ ایسی چیز نہیں جس کی کوئی فکر کی جائے یا جس کی تیاری کی کوشش کی جائے۔ ہم جن اعمال و اشغال میں وقت گزار رہے ہیں ہم اپنی ان دلچسپیوں کو چھوڑ نہیں سکتے۔ اور ہمارے پاس کوئی وقت نہیں کہ ہم موہوم باتوں کی تیاری شروع کردیں۔ قیامت کو آنا ہے تو آجائے، ہمیں اس کی کیا پرواہ۔ جیسے موسم آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں، دھوپ چڑھتی ہے پھر سایہ ہوجاتا ہے، ان میں کون سے بات فکرمندی کی ہے، ایسے ہی قیامت آئے گی تو گزر جائے گی۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ قیامت اگر آئے تو اس طرح آئے کہ ہمیں اس کا شعور تک نہ ہوسکے۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ خودفریبیوں کے مارے ہوئے لوگ ہیں، آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے اور ان کی غفلت اور لاپرواہی کو دل کا روگ نہ بنایئے۔
Top