Siraj-ul-Bayan - Faatir : 28
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ١ۙ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُ١ؕ قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر (ان کے سامنے) اٰيَاتُنَا : ہماری آیات بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنے کی ائْتِ : تم لے آؤ بِقُرْاٰنٍ : کوئی قرآن غَيْرِ ھٰذَآ : اس کے علاوہ اَوْ : یا بَدِّلْهُ : بدل دو اسے قُلْ : آپ کہہ دیں مَا يَكُوْنُ : نہیں ہے لِيْٓ : میرے لیے اَنْ : کہ اُبَدِّلَهٗ : اسے بدلوں مِنْ : سے تِلْقَآئِ : جانب نَفْسِيْ : اپنی اِنْ اَتَّبِعُ : میں نہیں پیروی کرتا اِلَّا مَا : مگر جو يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اِنِّىْ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اِنْ : اگر عَصَيْتُ : میں نے نافرمانی کی رَبِّيْ : اپنا رب عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ : دن عَظِيْمٍ : بڑا
اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں کہ (یا تو) اس کے سوا کوئی اور قرآن (بنا) لاؤ یا اس کو بدل دو۔ کہہ دو کہ مجھ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دو۔ میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے (سخت) دن کے عذاب سے خوف آتا ہے
واذا تتلی علیھم ایاتنا اور جب ان کے سامنے ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں۔ قتادہ کے قول پر مشرکین مکہ مراد ہیں۔ مقاتل نے کہا : پانچ آدمیوں کے حق میں اس آیت کا نزول ہو۔ مکرز بن حفص ‘ عمرو بن عبد اللہ بن ابو قیس عامری ‘ عاص بن عامر بن ہشام ‘ عبد اللہ بن ابی مخزومی ‘ ولید بن مغیرہ۔ بینٰت کھلی ہوئی یعنی جو واضح طور پر بتارہی ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ قال الذین لا یرجون لقاء نا کہتے ہیں : وہ لوگ جو ہماری پیشی سے نہیں ڈرتے۔ یعنی حشر سے نہیں ڈرتے اور قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ ائت بقران غیر ھذا اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لاؤ۔ یعنی اس کے سوا کوئی دوسری کتاب لاؤ جس کو ہم پڑھیں اور اس کے اندر ایسے امور نہ ہوں جو ہماری نظر میں بعید از صداقت ہیں جیسے مرنے کے بعد ثواب و عذاب ہونا ‘ بتوں کی پوجا کی ممانعت اور ان کے عیوب کا اظہار۔ او بدلہ یا اسی کو بدل دو ۔ یعنی ایک آیت کی جگہ دوسری آیت رکھ دو ۔ مقاتل کا بیان ہے : مندرجۂ بالا پانچوں آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا : اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں تو کوئی ایسا قرآن پیش کیجئے جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہو یا نہ ہو ‘ لات و منات اور عزّٰی کی برائی اور ان کی پوجا کی ممانعت اس میں نہ ہو۔ اگر اللہ کی طرف سے ایسا قرآن نہ آئے تو آپ خود اپنی طرف سے بنا دیجئے یا اسی کو بدل دیجئے۔ آیت عذاب کی جگہ آیت رحمت اور حرام کی جگہ حلال اور حلال کی جگہ حرام ہونے کا حکم دے دیجئے۔ قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقآء نفسی (اے محمد ﷺ ! ) آپ کہہ دیجئے کہ اپنی طرف سے اس کو بدل دینا میرے لئے درست نہیں۔ جواب میں صرف تبدیل آیت (یا تبدیل حکم) کا ذکر کیا (دوسرا قرآن پیش کرنے کا ذکر نہیں کیا) کیونکہ جب تبدیل آیت کا امکان نہیں تو دوسرا قرآن پیش کرنا بدرجۂ اولیٰ ناممکن ہوگا۔ یا یوں کہا جائے کہ ایک آیت کی جگہ دوسری آیت پڑھ دینا تو انسانی اختیار میں ہے اور اس قرآن کی طرح دوسرا معجز قرآن پیش کرنا انسانی قدرت سے ہی خارج ہے۔ پس جب امکانی چیز سے انکار کا حکم دے دیا گیا تو خارج از قدرت کام سے انکار بدرجۂ اولیٰ ہوگیا۔ یا یہ کہا جائے کہ اُبَدِّلَہٗ میں تبدیل سے مراد عام تبدیل ہے۔ قرآن کی جگہ دوسرا قرآن لانا یا آیت کی جگہ دوسری آیت ذکر کرنا (یعنی کسی قسم کی تبدیلی میرے لئے درست نہیں) ۔ ان اتبع الا ما یوحی الی میں تو بس اسی کا اتباع کرتا ہوں جو میرے پاس وحی سے آتا ہے۔ یہ جملہ اختیار تبدیل نہ ہونے کی علت ہے جو محض متبع ہوتا ہے ‘ اس کو بذات خود کوئی تصرف اور خرد برد کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ قرآن میں بعض آیات ناسخ اور بعض منسوخ ہیں (اس طرح تبدیل آیات ہوجاتی ہے) اس سے پیدا ہونے والے وہم کا بھی اس جملہ سے ازالہ ہوگیا (کہ یہ تبدیلی بھی میری خودساختہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ کفار بعض آیات کی ناسخیت و منسوخیت کو دیکھ کر شبہ کرسکتے تھے کہ شاید یہ رسول اللہ ﷺ کا اپنا کلام ہے ‘ جب چاہا حکم دے دیا ‘ جب چاہا منسوخ کردیا۔ مِنْ تِلْقَآءِ نَفِسِیْ کے لفظ سے اس کی بھی تردید ہوگئی۔ اپنی طرف سے تبدیل کرنے کو آئندہ آیت میں نافرمانی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں گا تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔ بڑے دن سے مراد ہے قیامت کا دن۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ کافر مذکورۂ بالا خواہش (یعنی تبدیل حکم و تغیر قرآن کی درخواست) کی وجہ سے مستحق عذاب ہوگئے۔
Top