Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 21
وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِؕ
وَ : اور الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَصِلُوْنَ : جوڑے رکھتے ہیں مَآ : جو اَمَرَ اللّٰهُ : اللہ نے حکم دیا بِهٖٓ : اس کا اَنْ : کہ يُّوْصَلَ : جوڑا جائے وَيَخْشَوْنَ : اور وہ ڈرتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب وَيَخَافُوْنَ : اور خوف کھاتے ہیں سُوْٓءَ : برا الْحِسَابِ : حساب
اور جن (رشتہ ہائے قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کو جوڑے رکھتے اور اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے اور برے حساب سے خوف رکھتے ہیں
والذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل اور وہ لوگ جوڑے رکھتے ہیں ‘ ان تمام چیزوں کو جن کو جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ مَآ اَمْرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ کے ذیل میں تمام انبیاء اور ساری آسمانی کتابوں پر بغیر تفریق کے ایمان لانا اور تمام مؤمنوں کے ساتھ تعاون و تنظیم اوراقارب سے حسن سلوک کرنا داخل ہے (ان تمام چیزوں کو جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے) بغوی نے لکھا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک اس جگہ مَآ اَمْرَ اللّٰہُ سے مراد صرف صلۂ رحم ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کا بیان ہے : میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے کہ اللہ نے فرمایا ہے : میں ہی اللہ ہوں ‘ میں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام (رحمن) سے لفظ رحم کو مشتق کیا۔ جو اس کو جوڑے رکھے گا ‘ میں اس کو (اپنے ساتھ) جوڑے رکھوں گا اور جو اس کو کاٹے گا ‘ اس سے میں قطع تعلق کرلوں گا۔ رواہ ابو داؤد۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا۔ پیدا کرچکا تو رحم نے کھڑے ہو کر رحمن کی کمر پکڑ لی۔ اللہ نے فرمایا : کیا ہے ؟ رحم نے عرض کیا : یہ اس کی جگہ ہے جو قطع تعلق سے تیری پناہ چاہتا ہے۔ اللہ نے فرمایا : کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ جو تجھے جوڑے رکھے گا ‘ میں اسے (اپنے ساتھ ( جوڑے رکھوں گا اور جو تجھے توڑے گا ‘ میں اس سے قطع تعلق کرلوں گا۔ رحم نے عرض کیا : بیشک میں اس پر راضی ہوں ‘ اے میرے رب۔ اللہ نے فرمایا : پس یہ (فیصلہ) تیرے لئے ہے۔ متفق علیہ بغوی اور حکیم اور محمد بن نصر نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن تین چیزیں عرش کے نیچے ہوں گی : قرآن مجید ‘ امانت ‘ رحم۔ قرآن (بندوں سے یا بندوں کی طرف سے) حجت کرے گا ‘ اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن (1) [ ظاہر و باطن ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ باطن قرآن ظاہر کے مخالف ہے اور کوئی ایسا معنی مراد ہے جو اہل لغت اور علماء امت کی سمجھ میں نہیں آسکتا ‘ صرف آئمہ اور اہل عرفان ہی کی عقل کی رسائی وہاں تک ہوسکتی ہے۔ مثلاً موسیٰ سے مراد باطنی طور پر قلب یا روح ہے اور بنی اسرائیل سے مراد روحانی اور علمی طاقتیں اور فرعون سے مراد نفس امارہ ہے اور قطبیوں سے نفس امارہ کی شہوانی اور غضبی قوتیں۔ یہ حقیقت میں قرآن کی معنوی تحریف ہے بلکہ باطن سے مراد قرآن کا مغز اور روح ہے اور ظاہر سے مراد پوست اور ہیئت۔ مثلاً نماز سے مراد یہی خاص ہیئت کی نماز ہے اور حضور قلب ‘ استغراق ‘ خلوص اس کا باطن ہے۔ زکوٰۃ یہی مقررہ خیرات ہے مگر اس کا باطن غریب پروری اور اہل ضرورت کی معاشی کفالت ‘ حب مال کو دل سے دور کرنا ہے۔] اور رحم ندا کرے گا : خوب سن لو ‘ جس نے مجھے جوڑے رکھا اللہ اس سے تعلق رکھے گا اور جس نے مجھے توڑا اللہ اس سے قطع تعلق کرلے گا۔ رواہ البغوی والحکیم ومحمد بن نصر۔ حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص چاہتا ہو کہ اللہ اس کے رزق میں وسعت اور عمر میں درازی کرے تو وہ قرابت داروں کو جوڑے رکھے۔ متفق علیہ حضرت ابو ایوب انصاری راوی ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کی فرودگاہ پر سامنے سے آیا اور عرض کیا : مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے۔ فرمایا : اللہ کی بندگی کر ‘ کسی چیز کو اس کا شریک نہ قرار دے ‘ نماز قائم کر ‘ زکوٰۃ ادا کر اور رشتہ داری کو جوڑے رکھ (یعنی قرابت داروں سے اچھا سلوک کر) رواہ البغوی۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رشتۂ قرابت کو جوڑنے والا وہ نہیں جو برابر کا بدلہ دے دے ‘ بلکہ قرابت کو جوڑنے والا وہ ہے کہ اگر رشتۂ قرابت (کسی عزیز کی طرف سے) ٹوٹ گیا ہو تو وہ اس کو جوڑے (یعنی جو شخص تجھ سے عزیز داری اور قرابت ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہو یا ختم کرچکا ہو ‘ تو اس سے قرابت پیدا کر اور رشتہ کو جوڑ) رواہ البخاری۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میری طرف سے حسن سلوک کا کون سب سے زیادہ مستحق ہے ؟ فرمایا : تیری ماں۔ اس نے عرض کیا : اس کے بعد۔ فرمایا : تیری ماں۔ اس نے عرض کیا : اس کے بعد۔ فرمایا : تیری ماں۔ اس نے عرض کیا : اس کے بعد کون ؟ فرمایا : تیرا باپ۔ دوسری روایت میں اتنا زائد ہے کہ تیرا باپ کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا : پھر تیرے قرابت دار حسب درجۂ قرابت۔ متفق علیہ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (باپ کے ساتھ یہ بھی) بہت اچھا سلوک اور بِرّ ہے کہ باپ کے منہ پھیرنے (یعنی مرنے) کے بعد اس کے دوستوں سے اچھا سلوک کیا جائے۔ رواہ مسلم حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے اپنے نسب کو جانو تاکہ رشتہ داروں کو جوڑے رکھو۔ صلۂ رحم سے رشتہ داروں میں محبت ‘ مال میں وسعت اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔ رواہ الترمذی وقال حدیث غریب۔ ویخشون ربھم اور اپنے رب سے یعنی اس کی وعید سے (بالعموم) ڈرتے ہیں۔ ویخافون سوء الحساب اور (بالخصوص) حساب آخرت کی خرابی سے خوف کھاتے ہیں ‘ اس لئے آخرت کی حساب فہمی سے پہلے وہ خود اپنے نفسوں سے اسی زندگی میں حساب فہمی کرتے ہیں (اور سوچتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا گناہ کئے ہیں ‘ پھر اپنے آپ کو سرزنش کرتے ہیں) ۔
Top