Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 181
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور جو پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے (مصائب پر) صبر کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی دور کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لیے عاقبت کا گھر ہے
والذین صبروا اور جن لوگوں نے صبر کیا۔ یعنی جو احکام ان کو دئیے گئے ہیں ‘ ان پر ثابت قدم رہے (حضرت ابن عباس) یا مصائب اور شدائد پر صابر رہے (عطاء) بعض علماء کے نزدیک صبر سے مراد ہے : نفسانی خواہشات سے اجتناب کرنا۔ زیادہ مناسب یہ ہے کہ صبر سے مراد ہو خواہشات کی مخالفت پر جما رہنا۔ یہ تفسیر تمام اقوال کو جامع ہے۔ (1) [ حاصل اختلاف یہ ہے کہ حضرت ابن عباس اور عطاء کے نزدیک صَبَرُوْا کے بعد علٰی محذوف ہے۔ احکام پر ثابت قدم رہنا یا مصائب پر ‘ دونوں صورتوں میں علٰی (جو صبر کا صلہ ہے) محذوف ہوگا۔ لیکن بعض علماء کے نزدیک عَنْ (حرف صلہ) محذوف ہے ‘ خواہشات سے یا گناہوں سے اجتناب کرنا۔ حضرت مفسر کی تفسیر زیادہ عام ہے مگر علٰی اس صورت میں بھی محذوف ماننا پڑے گا۔ مترجم ] ابتغآء وجہ ربھم اپنے رب کی خوشنودی طلب کرنے کیلئے۔ کسی دوسری دنیوی غرض کیلئے نہیں۔ نہ دکھاوٹ اور شہرت کیلئے (نہ مال و جاہ و حکومت کے حصول کیلئے۔ مترجم) واقاموا الصلوۃ اور نماز قائم کی ‘ یعنی فرض نماز اور سنن و نوافل میں سے اپنی مرضی کے مطابق جس قدر چاہا ‘ نماز پڑھی۔ وانفقوا مما رزقنھم اور جو کچھ (مال) ہم نے ان کو دیا ہے ‘ اس میں سے کچھ بطور زکوٰۃ فرض اور بطور نفقۂ واجب اور بطور صدقۂ نفل راہ خدا میں خرچ کیا (خداداد مال میں سے شرائط مقررہ کے مطابق کچھ مال زکوٰۃ میں ادا کرنا ضروری ہے اور زکوٰۃ کے علاوہ بھی اگر مسلمانوں کو یا اسلام کو ضرورت ہو تو مزید کچھ مال امدادی طور پر دینا لازم ہے۔ اِنَّ فِی الْاَمْوَالِ حَقًّا سوی الزَّکٰوۃ اور کچھ مال بطور خیرات دینا مستحب ہے۔ اَنْفَقُوْا کا لفظ ان تینوں صورتوں کو حاوی ہے ‘ حضرت مفسر کی یہی مراد ہے۔ مترجم) ۔ سرا وعلانیہ چھپا کر اور کھلم کھلا۔ نفل خیرات چھپا کر دینی افضل ہے (تاکہ شہرت طلبی کا شائبہ بھی نہ ہو) اور لوگوں کی بدگمانی کو دور کرنے اور دوسروں کو ترغیب دینے) کیلئے زکوٰۃ کھلم کھلا دینی بہتر ہے۔ مسلمان پر زکوٰۃ کا وجوب بہت کم ہوتا ہے (اوّل تو اتنا مال ہی نہیں ہو پاتا کہ زکوٰۃ واجب ہو اور مال ہوتا بھی ہے تو اس کے اسلام کا تقاضا ہے کہ پہلے ہی سے ادا کر دے) عموماً مسلمان نفل خیر ‘ خیرات کرتا ہی رہتا ہے (اتنی کہ اس پر زکوٰۃ بہت کم ہی واجب ہوتی ہے) اسلئے سرًّا کو علاَنِیَۃً سے پہلے ذکر کیا (ورنہ زکوٰۃ کی ادائیگی دوسری خیرات پر مقدم ہے ‘ اسلئے عَلاَنِیَۃً کا لفظ سرًّا سے پہلے آنا چاہئے تھا) ۔ ویدرء ون بالحسنۃ السیءۃ اور نیکی سے بدی کو دفع کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : نیک کام کرکے (کئے ہوئے) برے کاموں کی تلافی کردیتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّءٰات بلاشبہ نیکیاں ‘ گناہوں کو دور کردیتی ہیں۔ حضرت ابوذر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تجھ سے کوئی گناہ ہوجائے تو اس کے پیچھے نیکی بھی کر ‘ یہ اس کو مٹا دے گی۔ رواہ احمد بسند صحیح۔ ابن عساکر نے عمر بن اسود کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دس گناہ تو نے کئے ہوں تو ایک نیکی بھی (ایسی) کر جس سے تو گناہوں کو اتار دے۔ حضرت عقبہ بن عامر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص گناہوں کے بعد نیکیاں کرلیتا ہے ‘ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کوئی اتنی تنگ زرہ پہن رکھی ہو جس سے اس کا دم گھٹ رہا ہو (یعنی اتنے گناہ کئے کہ ہلاکت کے قریب پہنچ گیا) پھر اس نے ایک نیکی کرلی تو (زرہ کی) ایک کڑی ٹوٹ گئی ‘ پھر دوسری کڑی ٹوٹ گئی (اس طرح نیکیاں کرتے کرتے سب کڑیاں ایک کے بعد ایک ٹوٹ گئیں) یہاں تک کہ زرہ زمین پر گر پڑی۔ رواہ الطبرانی۔ ابن کیسان نے کہا : آیت کا معنی یہ ہے کہ گناہ ‘ توبہ کے ذریعہ سے دفع کردیتے ہیں (یعنی حسنہ سے مراد تو بہ ہے) امام احمد نے عطاء کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تو نے گناہ کیا ہو تو فوراً اس کے بعد توبہ کرلے۔ چھپے گناہ کی توبہ مخفی طور پر اور علانیہ گناہ کی توبہ علانیہ (الزہد) ۔ بعض علماء کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ برائی کے عوض برائی نہیں کرتے بلکہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ سدی نے کہا : مطلب یہ ہے کہ جب ان کے خلاف کوئی جہالت کرتا ہے تو (جہالت کا جواب وہ جہالت سے نہیں دیتے) وہ تحمل کرتے ہیں۔ سئیہ سے مراد ہے : جہالت اور حسنہ سے مراد ہے : تحمل۔ قتادہ نے کہا : جب کوئی ان سے برائی کرتا ہے تو وہ لوٹا کر اس سے بھلائی کرتے ہیں ‘ جیسا دوسری آیت میں آیا ہے : وَاِذَا خاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوا سلاَمًا۔ حسن نے کہا : جب ان کو محروم رکھا جائے تب بھی (محروم رکھنے والوں کو وہ محروم نہیں رکھتے بلکہ) وہ دیتے ہیں ‘ ان پر ظلم کیا جاتا تو معاف کردیتے ہیں ‘ اگر ان سے قطع قرابت کیا جائے تو وہ پھر بھی قرابت کو جوڑتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان کو جوڑے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قرابت توڑتے ہیں ‘ میں ان سے بھلائی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برائی کرتے ہیں ‘ ان (کی زیادتیوں) کو برداشت کرتا ہوں اور وہ مجھ پر زیادتیاں کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہہ رہے ہو تو تم ان پر خاک جھونک رہے ہو (یعنی ان کو ناکام بنا رہے ہو۔ وہ خسارے میں رہیں گے اور تم کامیاب ہو گے) جب تک تم اس (سلوک) پر قائم رہو گے اللہ کی طرف سے ان کے مقابلہ میں تمہاری حمایت ہوتی رہے گی۔ رواہ مسلم۔ عبدا اللہ ابن مبارک نے فرمایا : یہ (مذکورۂ بالا) آٹھ خصائل ہیں جو جنت کے آٹھ دروازوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں (ہر خصلت جنت کے ایک دروازے کی طرف رہنمائی کر رہی ہے) ۔ اولئک لھم عقبی الدار اس جہان میں نیک انجام ان لوگوں کے واسطے ہے۔ عقبیٰ کسی کام کا بدلہ۔ اَعًقَبَہٗ اس کا بدلہ دیا (قاموس) کام کے پیچھے اس کا بدلہ (نتیجہ) آتا ہے ‘ اس کو عقبیٰ کہا جاتا ہے (خواہ اچھا بدلہ ہو یا برا) لیکن (عرف عام میں) عقبۃ عقبیٰ اور عاقب اچھی جزاء یعنی ثواب کیلئے خاص کرلیا گیا ہے اور عقوبت مُعَاقَبَۃ اور عقاب کا اطلاق عذاب اور برے بدلہ پر ہی ہوتا ہے۔ ثواب کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے : خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا۔ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ- نِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ- وَالْعَاقِبَۃُ لِّلْمُتَّقِیْنَ اور عذاب کے بارے میں فرمایا ہے : فَحَقَّ عِقَابِ- شَدِیْدُ الْعِقَاب۔ وَاِنْ عَاقِبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ- مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ۔ لیکن لفظ عاقبت اگر مضاف ہو تو عقوبت کے معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں ‘ جیسے ثُمَّ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ اَسآأُوا السُّوٰٓی یا فَکَانَ عَاقِبَتُھُمَا اَنَّھُمَا فِی النَّارِ ۔ عاقبت بمعنی عقوبت یا تو بطور استعارہ مستعمل ہے یا بطور اشتراک (یعنی لفظ عاقبت دونوں معنی میں مشترک ہے ‘ اچھا انجام اور برا انجام) ۔ حقیقت میں آخرت ہی قرار گاہ ہے ‘ اسلئے الدار سے مراد آخرت ہے۔ دنیا تو گذرگاہ ہے ‘ قرار گاہ نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مذکورۂ بالا اشخاص کیلئے دار آخرت میں اچھا نتیجہ اور ثواب ہوگا) ۔
Top