Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس نے (شبِ تاریک میں) آگ جلائی۔ جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو خدا نے ان کی روشنی زائل کر دی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے
مَثَلُھُمْ ( ان کا عجیب حال) لفظ مثل اور مثل اور مثیل اصل میں نظیر کو کہتے ہیں پھر اس قول مشہور کو کہنے لگے جس کا محل استعمال محل وضع سے مشابہ ہو اور مثل وہی قول بن سکتا ہے جس میں کسی قسم کی غرابت ہو اس کے بعد ہر حال عجیب و نادر کو مثل بولنے لگے چناچہ اس آیت میں مثل کے معنی حال عجیب اور نادر کے ہی ہیں۔ کَمَثَلِ الَّذِیْ ( ان لوگوں کے حال عجیب کی مانند ہے) اس مقام میں الَّذِیْ بمعنی الَّذِیْن ہے جیسا کہ آیت : وَ خُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا ( میں الّذی بمعنی الذین ہے) اور الذی کو بجائے الذین کے ذکر کرنا جائز ہے حالانکہ لفظ القائم کو بجائے القائمین کو بولنا جائز نہیں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ الذی کی صورت میں مقصود بیان الذی خود نہیں ہے بلکہ اس جملہ کو بیان کرنا مقصود ہے جو صلہ ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ الذی اسم تام نہیں بلکہ اسم تام کا گویا جز ہے اور کسی اسم کے جز کی جمع نہیں آتی (بلکہ اسم تام کی جمع آتی ہے) اور الذین اس کی جمع نہیں بلکہ وہ اسم مستقل ہے کہ اس میں کسی قدر زیادتی ہے کہ وہ زیادتی معنی زائد پر دال ہے اور اسی واسطے الذین ہمیشہ یا کے ساتھ آتا ہے۔ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمََّآ اَضَآءَ تْ مَاحَوْلَہٗ ( جنہوں نے آگ سلگائی پس جب آگ نے آگ جلانے والوں کے اردگرد کو روشن کردیا) ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ ( تو لے گیا اللہ ان کی روشنی کو) یہ آیت لما کا جواب ہے اور بجائے روشنی کے آگ نہیں فرمایا کیونکہ یہاں مقصود آگ سے ان کو روشنی ہی تھی اور نور کے ضائع کرنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ تمام امور اسی کے پیدا کرنے سے موجود ہوتے ہیں اور یا یہ ہے کہ اس موقع میں آگ بجھنا کسی خفی یا سماوی سبب سے وقوع میں آیا ہوگا اس لیے اس فعل کو اللہ کی طرف منسوب کردیا یا ذہاب نور کو مؤکد بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کردی اور یا جواب لما کا اختصار اور التباس نہ ہونے کی وجہ سے محذوف ہے جیسا کہ حق تعالیٰ کے قول وَ لَمَّا ذَھَبُوْا بِہٖ میں جواب لماکا حذف کردیا گیا ہے اس تقدیر پر جملہ ذَھَبَ اللّٰہُ ..... یا تو مستانفہ ہے یعنی ایک کلام سابق سے پیدا ہونے والے سوال کا جواب ہے۔ سوال یہ ہوسکتا تھا کہ کیا و جہ ہے کہ منافقین کو اس شخص کے حال سے تشبیہ دی جس نے آگ سلگائی اور پھر وہ آگ بجھ گئی ‘ یا یہ کہ جملہ تشبیہ یعنی کَمَثلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَارًا سے بیان کے طور پر بدل ہوگا اور ان دونوں صورتوں میں ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرھِمْ میں ضمیر منافقین کی طرف راجع ہوگی۔ وَ تَرَکَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ ( اور انہیں چھوڑ دیا اندھیروں میں کہ کچھ نہیں دیکھتے) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے چند امور کو اختیار فرمایا اوّل یہ کہ ظلمت کو ذکر فرمایا ( حالانکہ اصل مقصود بغیر ذکر ظلمت کے بھی حاصل تھا) دوسرے یہ کہ صیغہ جمع سے ذکر فرمایا۔ تیسرے یہ کہ بصورت نکرہ بیان فرمایا چوتھے یہ کہ ظلمت کی صفت لا یبصرون ذکر کی۔ یہ چاروں امر ظلمت کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے ذکر فرمائے۔ حاصل یہ ہوا کہ گویا وہ ایک ظلمت تہ بر تہ (تہہ در تہہ) متعدد تاریکیوں کا مجموعہ ہے اور چونکہ لفظ ترک آیۃ میں صیر کے معنی کو شامل ہے اس لیے قائم مقام افعال قلوب کے کردیا گیا اور لا یبصرون کا مفعول ترک کردیا گیا گویا یہ فعل متعدی ہی نہیں اور اس طرح نفس رویت کی ہی نفی ہوگئی۔ یہ آیت یا تو بطور مثل اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے حق میں بیان فرمائی ہے جس کو ایک قسم کی ہدایت عطا فرمائی اور اس نے ضائع کردی اس کو نعمت ابدی تک پہنچنے کا ذریعہ نہ بنایا جب وہ ہدایت ضائع ہوگئی تو حیران اور حسرت مند رہ گیا پس یہ آیت سابق آیت کے مضمون کی توضیح و اثبات کے لیے ذکر فرمائی کیونکہ منافقوں نے اس کلمہ حق کو جو ان کی زبانوں سے نکلا تھا۔ دلوں میں کفر کو پوشیدہ کرکے ضائع کردیا تھا ‘ یا یہ آیت مثل نہیں بلکہ حق تعالیٰ نے منافقین کے ایمان کو آگ سے تشبیہ دی کیونکہ دنیا میں وہ ایمان ان کے خون اور مال کو محفوظ رکھتا ہے اور احکام اور غنائم میں ان کو مسلمانوں کا شریک بنا دیتا ہے مگر اس کا اثر باقی رہنے والا نہیں ایسا ایمان ان کو آخرت میں تباہ کردے گا اور دنیا میں ان کا حال سب پر ظاہر ہوجاتا ہے گویا آگ بجھا دی جاتی ہے۔
Top