Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی، تو نہ تو ان کی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہوئے
اُوْلٰءِکَ اَلَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْھُدٰی فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ (یہی ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی سو نفع نہ لائی ان کی سوداگری) اِشْتَروْا میں اِشْتَراء سے مراد استبدال اور ضَلَلاَۃٌ سے مراد کفر اور ھدٰی سے مراد ایمان ہے اور خریدو فروخت کے ذریعے سے اصل سرمایہ پر زیادتی طلب کرنے کو تجارۃ کہتے ہیں اور ربح تجارۃ کی طرف مجازاً اسناد کردیا ہے اور وجہ مناسبت یہ ہے کہ لفظ تجارت ربح 2 ؂ کے فاعل کے ساتھ متصل ہے یا یہ مناسبت ہے کہ تجارۃ ربح کا سبب ہے جیسا کہ فاعل ربح کا سبب ہوتا ہے۔ وَ مَا کَانوُْا مُھْتَدِیْنَ ( اور وہ راہ پانے والے نہ ہوئے) یعنی تجارت سے انہوں نے راہ نہ پائی کیونکہ تجارت سے مقصود سرمایہ کی سلامتی کے ساتھ نفع کا حاصل ہونا ہے سو انہوں نے اصل سرمایہ ہی کو ضائع کردیا۔ یہاں سرمایہ سے فطرت 3 ؂ مراد ہے اور نفع حاصل نہ کرنے سے مراد حق اور کمال کا حاصل نہ کرنا۔
Top