Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 6
وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک تم لَتُلَقَّى : دیا جاتا ہے الْقُرْاٰنَ : قرآن مِنْ لَّدُنْ : نزدیک جانب) حَكِيْمٍ : حکمت والا عَلِيْمٍ : علم والا
اور تم کو قرآن (خدائے) حکیم وعلیم کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے
وانک لتلقی القران من لدن حکیم علیم . اور آپ کو بالیقین ایک بڑے حکمت والے ‘ علم والے کی طرف سے قرآن دیا جا رہا ہے۔ حَکِیْمٍ اور عَلِیْمٍ میں تنوین مفید تعظیم ہے یعنی یہ قرآن ایک ایسے عظیم الشان علیم و حکیم کی طرف سے ہے جس کے علم و حکمت کی تہہ کو کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ علم حکمت کے اندر داخل ہے کیونکہ علم عام مفہوم پر دلالت کرتا ہے اور حکمت کا لفظ علم کے استحکام پر دلالت کرتا ہے لہٰذا دونوں اوصاف کو ظاہر کرنے کے لئے حکیم کے ساتھ علیم بھی فرما دیا ‘ پھر اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ کچھ علوم تو حکمت ہوتے ہیں جیسے علم العقائد علم شریعت وغیرہ اور بعض علوم حکمت نہیں ہوتے جیسے قصص اور آئندہ چیزوں کا بیان۔ گویا لفظ علیم سے اس طرف اشارہ ہے کہ اس قرآن میں گزشتہ واقعات کو بھی بیان کیا گیا ہے چناچہ اس سے آگے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے قصہ کی تفصیل ہے۔
Top