Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 6
وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک تم لَتُلَقَّى : دیا جاتا ہے الْقُرْاٰنَ : قرآن مِنْ لَّدُنْ : نزدیک جانب) حَكِيْمٍ : حکمت والا عَلِيْمٍ : علم والا
اور تم کو قرآن (خدائے) حکیم وعلیم کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے
(6 تا 13) مشرکین مکہ قرآن کو انسان کا کلام کہتے تھے اس لیے فرمایا اے رسول اللہ کے تم نے تو قرآن ایسے صاحب حکمت سے پایا ہے جو حکمت والا ہے اپنے حکموں میں اور خبردار ہے تمام امور میں اب آگے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا کہ کس طور سے ان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے انتخاب کرلیا اور ان سے باتیں کیں اور ان کو بڑی بڑی نشانیاں دیں اور بھیجا ان کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس تو ان لوگوں نے کفر اور تکبر کیا اور جو معجزات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دکھائے ان کو کھلا ہوا جادو بتلایا صحیح بخاری ومسلم کے 1 ؎ (1 ؎ مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین فصل اول) حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا علاوہ اور معجزوں کے مجھ کو قرآن کا ہی ایک معجزہ ایسا دیا گیا ہے جس کے سب سے کثرت سے لوگ راہ راست پر آویں گے جس کثرت سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار لوگوں کی تعداد اور امتوں کے نیک لوگوں سے زیادہ ہوگی یہ حدیث من لدن حکیم علیم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف میں ایسی حکمت اور علم غیب کی باتیں ہیں جس کا اثر قیامت تک لوگوں کے دلوں پر پڑے گا ان آیتوں میں موسیٰ (علیہ السلام) کا جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی بی بی کو ساتھ لے کر مدین سے مصر کو آرہے تھے تو اندہیری رات میں راستہ بھول گئے تھے اور جاڑے کے موسم کے سبب سے ان کو اور ان کی بی بی کو سردی بھی بہت لگ رہی تھی اسی حالت میں طور پہاڑ کے پاس ان کو آگ کی سی روشنی نظر آئی اسی روشنی کو دیکھ کر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو میں اس آگ کی روشنی کی طرف جاتا ہوں آگ کے پاس کوئی شخص ملا تو اس سے راستہ کی خبر بھی مل جاوے گی کہ سیدھا راستہ کدہر کو ہے اور سردی میں تاپنے کے لیے تھوڑی سی آگ بھی لیتا آؤں گا اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نظر تمام مخلوقات کو گھیرے ہوئے ہے لیکن مخلوقات میں یہ تاب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظر کی برداشت کرسکے اس لیے اللہ تعالیٰ کے منہ کے آگے پردے ہیں چناچہ صحیح مسلم کی ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث 2 ؎ میں ان پردوں کا ذکر تفصیل سے ہے (2 ؎ صحیح مسلم ص 99 جلد اول۔ ) صحیح مسلم کی بعض روایتوں میں ناری پردہ کا ذکر ہے اور بعض میں نوری پردے کا اسی واسطے بعضے سلف نے یہاں نار کے معنے آگ کے لیے ہیں اور بعضوں نے نور کے اور صحیح مسلم میں دونوں معنے کی روایت ہے اس لیے دونوں معنے صحیح ہیں لیکن امام مسلم کی طرز روایت 3 ؎ سے نور کے پردے کی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے (3 ؎ حوالہ مذکور۔ ) اس روشنی کے اندر اور آس پاس جو فرشتے تھے ان کو صاحب برکت فرمایا کیونکہ وہ مقرب فرشتے نور الٰہی کی روشنی میں تھے اب غیب سے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز آئی کہ اے موسیٰ اللہ کی ذات سب عیبوں سے پاک ہے اور وہ بڑا زبردست حکمتوں والا ہے اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو قدرت اور حکمت الٰہی دکھانے کے لیے یہ ارشاد ہوا کہ موسیٰ تم اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دو وہ لکڑی زمین پر ڈالتے ہی اب تو پتلا سا ایک سانپ بن گئی اور فرعون کے سامنے اور جادوگروں کے مقابلہ کے وقت بڑا سانپ بن گئی اس لیے اس قصہ میں کہیں سانپ کے بیان ہیں ایک لفظ آیا ہے کہ اور کہیں دوسرا پہلے پہل لکڑی کو سانپ بنتے ہوئے دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) ڈرے اور جھجک کر پیچھے کو ہٹ گئے اس لیے فرمایا موسیٰ ڈر نہیں اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنا رسول مقرر کیا ہے اور اللہ کے رسول سوا اللہ کے اور کسی چیز سے نہیں ڈرتے اور ایک فرعونی شخص پر جو تم نے زیادتی کی اگرچہ وہ اللہ سے ڈرنے کا کام تھا لیکن ایسے کام کے بعد جو شخص نام ہو تو للہ غفور رحیم ہے اس کے بعد ہاتھ کے سورج کی طرح چمکدار ہوجانے کا معجزہ عنایت ہوا ان دونوں معجزوں کے ساتھ زبان کے تو تلاپن کے اچھے ہوجانے کو دریا میں راستہ پیدا ہوجانے کے طورفان کو ٹڈیوں چیچڑیوں کی مینڈکوں اور خون کو ملایا جائے تو یہ نو معجزے ہوئے ان سب کو فرعون اور اس کی قوم نے جادو بتلایا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث اوپر گذر چکی ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں برے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں یہ یہ حدیث اس کی تفسیر ہے کہ فرعون اور اس کی قوم نے آنکھیں بند کر کے ایسے ایسے بڑے معجزوں کو جادو کیوں بتلایا۔
Top