Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 112
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ
ضُرِبَتْ : چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں اِلَّا : سوائے بِحَبْلٍ : اس (عہد) مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَحَبْلٍ : اور اس (عہد) مِّنَ النَّاسِ : لوگوں سے وَبَآءُوْ : وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے (کے) وَضُرِبَتْ : اور چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَسْكَنَةُ : محتاجی ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے تھے الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھ جاتے
یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت (کو دیکھو گے کہ) ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے کہ یہ خدا اور (مسلمان) لوگوں کی پناہ میں آ جائیں اور یہ لوگ خدا کے غضب میں گرفتار ہیں اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے یہ اس لیے کہ خدا کی آیتوں سے انکار کرتےتھے اور (اس کے) پیغمبروں کو ناحق قتل کر دیتے تھے یہ اس لیے کہ یہ نافرمانی کیے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے
ضربت علیھم الذلۃ ان یہودیوں پر ذلت کی مہر لگا دی گئی ہے یعنی انکی جان ‘ اہل و عیال اور مال کو مباح کردیا گیا ہے این ما ثقفوا جہاں بھی پائے جائیں۔ الا بحبل من اللہ مگر قرآن یا دین اسلام کی وجہ سے (ان کی حفاظت ہوسکتی ہے) جس نے امن طلب کافروں اور ذمیوں سے تعرض نہ کرنے کا حکم دیا ہے اللہ نے فرمایا ہے : وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمشرکین اسْتَجَارَکَ فَاجِرْہُ دوسری جگہ فرمایا : حتّٰی یُعْطُوُا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ وَّ ھُمْ صَاغِرُوْنَ ۔ و حبل من الناس اور مسلمانوں کے عہد سے یعنی امان طلبی کے۔ اگر مسلمان امان ہی کا عہد کرلیں یا قبول جزیہ کے بعد عقد ذمہ ہوجائے (تو یہودیوں کا جان و مال محفوظ ہوجائے گا) گویا حبل اللہ اور حبل من الناس سے ایک ہی مراد ہے (یعنی عقد ذمہ بعد قبول الجزیہ یا امان دہی اگر دونوں جدا جدا چیزیں ہوتیں تو دونوں کے درمیان واؤ عاطفہ نہ ہو بلکہ اَوْ ہوتا 1 ؂۔ و باء و بغضب من اللہ اور اللہ کے غضب کے سزا وار ہو کر اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹیں گے یعنی مریں گے یا مرنے کے بعدزندہ ہوں گے۔ اللہ نے فرمایا ہے : کنتم امواتاً فاحیاکم ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ۔ وضربت علیم المسکنۃ اور مسکینی یعنی کنجوسی اور حرص کا احاطہ ان پر کردیا گیا جیسے نصب کردہ ڈیرہ خیمہ اپنے اندر رہنے والوں کو گھیرے ہوئے ہوتا ہے کنجوس آدمی مال خرچ نہیں کرتا ہمیشہ مسکینوں کے حلیہ سے رہتا ہے اور حریص ہمیشہ کمائی کی کوشش اور مشقت میں لگا رہتا ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ یہودی بیشتر فقراء اور مساکین ہوتے ہیں 2 ؂۔ ذالک یہ ذلت مسکینی اور غضب خدا کی مہر اس لیے ہے بانھم کانوا یکفرون کہ وہ کفر کرتے رہے ہیں۔ بایٰت اللہ اللہ کی آیات کا۔ و یقاتلون الانبیاء اور انبیاء کو قتل کرتے رہیں ہیں۔ بغیر حق ناحق۔ یعنی وہ جانتے رہے ہیں کہ انبیاء کو قتل کرنا ظلم اور خلاف حق ہے۔ ذالک یہ کفر اور قتل انبیاء بما عصوا ضد اور عناد کے زیر اثر قصداً اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ہوا۔ و کانوا یعتدون اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اللہ کے ضوابط سے سرکشی کرتے رہے۔ بعض علماء کے نزدیک ذالکدوم کا مشار الیہ بھی وہی دنیوی ذلت اور اخروی استحقاق عذاب ہے اور ذلت و استحقاق عذاب کی دو علتیں ہیں ایک کفر و قتل انبیاء اور دوسری معصیت و تجاوز از ضوابط کیونکہ وہ فرعی احکام کے بھی مکلف تھے (پس اصول کی مخالفت اور فروعی احکام کی خلاف ورزی دونوں دنیوی ذلت اور اخروی استحقاق عذاب کی موجب ہیں) میں کہتا ہوں کہ اس تفسیر پر دوسرے ذالک پر حرف عاطف لانا چاہئے تھے۔ ابن مندہ نے الصحابہ میں اور ابن ابی حاتم اور طبرانی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب حضرت عبد اللہ بن سلام اور ثعلبہ بن شعبہ اور اسید بن تبیعہ اور اسد بن عبید اور ان کے ساتھ دوسرے یہودی مسلمان ہوگئے اور ایمان لے آئے اور اسلام کی انہوں نے تصدیق کی اور دل سے اسلام کی طرف راغب ہوئے تو علماء یہود نے کہا کہ محمد پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے صرف وہی لوگ ہیں جو ہم میں برے تھے اگر اچھے ہوتے تو اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر دوسرے کی طرف نہ جاتے اس پر اللہ نے نازل فرمایا : لَیسوا سواء الی قولہ من الصالحین۔ احمد اور نسائی اور ابن حبان نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا کہ (ایک روز) رسول اللہ نے عشاء کی نماز میں تاخیر کردی پھر دیر کے بعد (نبوت کدہ سے) برآمد ہو کر مسجد میں تشریف لائے لوگ نماز کے منتظر تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : خبردار ہوجاؤ کہ اس وقت کسی مذہب کا کوئی شخص تمہارے سوا اللہ کی یاد نہیں کرتا اور یہ آیت نازل ہوئی۔
Top