Tadabbur-e-Quran - Maryam : 77
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ
ضُرِبَتْ : چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں اِلَّا : سوائے بِحَبْلٍ : اس (عہد) مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَحَبْلٍ : اور اس (عہد) مِّنَ النَّاسِ : لوگوں سے وَبَآءُوْ : وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے (کے) وَضُرِبَتْ : اور چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَسْكَنَةُ : محتاجی ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے تھے الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھ جاتے
وہ جہاں کہیں بھی ہیں ان پر ذلت تھوپ دی گئی ہے۔ بس اگر کچھ سہارا ہے تو اللہ اور لوگوں کے کسی عہد کے تحت۔ وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی آیتوں کا انکار اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں کیونکہ یہ نافرمان اور حد سے آگے بڑھنے والے رہے ہیں۔
ذلت کی مار : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ یعنی جس طرح دیوار پر گیلی مٹی تھوپ دی جاتی ہے اسی طرح ان پر ذلت تھوپ دی گئی ہے۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ انہوں نے ع زت کی جگہ ذلت کی راہ اختیار کی تو ان پر پوری طرح ذلت مسلط کردی گئی۔ اَيْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا سے اس ذلت کے احاطہ اور اس کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں کہیں بھی یہ ہیں ذلت ان پر مسلط ہے۔ یہاں تک کہ اپنے مرکز میں بھی یہ ذلیل و خوار ہیں۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں ان کو عزت حاصل ہو اور یہ اپنی کمر کے بل بوتے پر کھڑے ہوں۔ اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ کہیں قائم ہیں تو اپنی سطوت و عزت کے اعتماد پر نہیں بلکہ یا تو اللہ والوں کے کسی معاہدے نے ان کو امان دے رکھی ہے یا اپنے پاس پڑوس کے قبائل سے انہوں نے کوئی اسی قسم کا سہارا حاصل کر رکھا ہے۔ یہ سہارے وقتی اور عارضی ہیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے ابتداء ان کے مختلف قبائل سے جو معاہدے کیے تھے ان کی عہد شکنیوں اور شرارتوں کی وجہ سے بعد میں وہ ختم کردئیے گئے اور یہ یا تو اپنے جرائم کی پاداش میں قتل کردئیے گئے یا جلا وطن کردئیے گئے۔ دوسرے قبائل سے انہوں نے جو معاہدے کر رکھے تھے وہ قبائل بھی آہستہ آہستہ اسلام کے زیر اثر آگئے تو وہ معاہدے بھی عملاً بےاثر ہو کر رہ گئے۔ جس درخت کی اپنی جڑیں کھوکھلی ہوں وہ تھونیوں کے سہارے آخر کب تک کھڑا رہ سکتا تھا۔ اس زمانے میں یہود کی نام نہاد سلطنت اسرائیل بھی، جیسا کہ ہم اس کتاب میں کہیں اشارہ کرچکے ہیں، اسی حکم میں داخل ہے۔ وہ بھی درحقیقت اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ بحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ امریکہ اور انگلستان کے سہارے پر کھڑی ہے اور جو چیز دوسرے کے سہارے کھڑی ہو اس کا کھڑا ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہیں۔ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ کا مفہوم : وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ کا مفہوم سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ یہ یہود کی شامت اعمال اور ان کی بدبختی کا بیان ہے کہ جہاں سے ان کو عزت و سرفرازی کی دولت دو جہاں لے کے لوٹنا تھا یہ اپنی دوں ہمتی کی وجہ سے وہاں سے خدا کا غضب لے کر لوٹے، جس کے نتیجے میں ان پر ذلت مسلط کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب امامت و شہادت پر مامور فرمایا تھا۔ اگر یہ اس کی ذمہ داریاں ادا کرتے اور اپنے عہد پر استوار رہتے تو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کا مقام بہت اونچا تھا لیکن یہ اپنی دنیا پرستی اور پست ہمتی کی وجہ سے اس کی ذمہ داریاں نہ سنبھال سکے اور خدا کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔ یہ حقیقت یہاں پیش نظر رہے کہ جو مقام جتنا ہی اونچا ہوتا ہے اس کی چڑھائی اتنی ہی سخت ہوتی ہے اور پھر اسی اعتبار سے اس کے گرنے کا انجام بھی نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ ’ مسکنت ‘ کا مفہوم : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ مسکنت سے مراد بےحوصلگی اور پست ہمتی ہے۔ قرآن نے اہل کتاب کی پست ہمتی کو نہایت حقیقت افروز تمثیلوں سے جگہ جگہ واضح فرمایا ہے۔ ان تمثیلوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہود پر دنیا پرستی کا اتنا غلبہ تھا کہ آخرت کی طلب اور اس کے لیے ایثار و قربانی کا کوئی حوصلہ ان کے اندر باقی رہ ہی نہیں گیا تھا۔ وہ آخرت کے بڑے سے بڑے نسیہ اپنی دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے نقد کو قربان کرنے کی بھی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے تھے۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے بھی ان کی اس بزدلی اور پست ہمتی پر بار بار ملامت کی ہے۔ بعد کے انبیاء نے بھی اس کا نوحہ کیا ہے۔ قرآن نے بھی جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے۔ کتے والی تمثیل ان کی پست ہمتی ہی کی تمثیل ہے اور غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کی یہ پست ہمتی ہی تھی جس کے سبب سے وہ اس بات کے مستھق ہوئے کہ ان پر ذلت مسلط کردی جائے۔ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ الایۃ، یہ علت بیان ہوئی ہے اس بات کی کہ کیوں یہ ذلت، غضب اور مسکنت کے عذاب کے مستحق قرار پائے ؟ فرمایا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ اللہ کی آیات کا انکار اور انبیا کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں۔ بلندی اور رفعت کا ذریعہ اللہ کی آیات ہیں۔ جو لوگ ان کا انکار کریں اور اس انکار کو اپنا شیوہ بنا لیں وہ اگر ذلت کے سزا وار نہ ہوں گے تو کسی چیز کے ہوں گے۔ اسی حقیقت کو قرآن نے اس تمثیل میں پیش کیا ہے جس میں فرمایا ہے کہ ”ولوشئنا لرفعناہ بھا ولکنہ اخلد الی الارض : اگر ہم چاہتے تو ان آیات کے ذریعے سے اس کو بلند کرتے لیکن یہ تو برابر زمین ہی کی طرف جھکا رہا“۔ ایسا ہی معاملہ انبیا اور آمرین بالقسط کے قتل کا ہے۔ یہ انسانیت کے گل سرسبد ہوتے ہیں۔ انہی کے سہارے انسانیت سعادت اور کمال کے مدارج طے کرتی ہے۔ اگر کوئی گروہ ان کا قاتل رہا ہو تو وہ خدا کی طرف سے غضب اور ذلت کے سوا اور کس چیز کا حقدار ہوسکتا ہے ؟ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ ، یہ سبب بیان ہوا ہے ان کے کفر بآیات اللہ اور قتل انبیاء کا، یعنی نافرمانی اور حدود الٰہی سے تجاوز ان کی عادت رہی ہے۔ اسی چیز نے ان کو کفر اور قتل انبیا پر اکسایا۔ بالآخر یہ جرائم ان کے لیے خدا کے غضب کا باعث ہوئے اور ان پر ذلت و مسکنت تھوپ دی گئی۔ اجزا کی وضاحت کے بعد نظم کے پہلو پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا کہ اوپر کی آیت میں جو بات فرمائی گئی تھی، اس آیت میں اس کی دلیل بیان ہوگئی کہ بھلا وہ لوگ تمہارا کیا بگاڑ سکیں گے جن پر ہر جگہ خدا کی مار ہے اور جو اب تمہارے سہاروں ہی پر جی رہے ہیں۔
Top