Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 112
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ
ضُرِبَتْ
: چسپاں کردی گئی
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الذِّلَّةُ
: ذلت
اَيْنَ مَا
: جہاں کہیں
ثُقِفُوْٓا
: وہ پائے جائیں
اِلَّا
: سوائے
بِحَبْلٍ
: اس (عہد)
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ سے
وَحَبْلٍ
: اور اس (عہد)
مِّنَ النَّاسِ
: لوگوں سے
وَبَآءُوْ
: وہ لوٹے
بِغَضَبٍ
: غضب کے ساتھ
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ سے (کے)
وَضُرِبَتْ
: اور چسپاں کردی گئی
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْمَسْكَنَةُ
: محتاجی
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّھُمْ
: اس لیے کہ وہ
كَانُوْا
: تھے
يَكْفُرُوْنَ
: انکار کرتے
بِاٰيٰتِ
: آیتیں
اللّٰهِ
: اللہ
وَيَقْتُلُوْنَ
: اور قتل کرتے تھے
الْاَنْۢبِيَآءَ
: نبی (جمع)
بِغَيْرِ حَقٍّ
: ناحق
ذٰلِكَ
: یہ
بِمَا
: اس لیے
عَصَوْا
: انہوں نے نافرمانی کی
وَّكَانُوْا
: اور تھے
يَعْتَدُوْنَ
: حد سے بڑھ جاتے
تھوپ دی گئی ہے ان پر ذلت وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی عہد ہو یا لوگوں کی طرف سے کوئی عہدہو اور وہ لوٹے اللہ کا غْضب لے کر۔ اور مار دی گئی ہے ان پر مسکنت۔ یہ سب کچھ اس سبب سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے تھے اور نبیوں کو بلا وجہ قتل کر ڈالتے تھے اور یہ اس سبب سے ہوا کہ انھوں نے نافرمانی کی اور حدود سے نکل جاتے تھے
ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّـۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَـآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَـقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَـآئَ بِغَیْرِحَقٍّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ۔ (تھوپ دی گئی ہے ان پر ذلت وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی عہد ہو یا لوگوں کی طرف سے کوئی عہدہو اور وہ لوٹے اللہ کا غْضب لے کر۔ اور مار دی گئی ہے ان پر مسکنت، یہ سب کچھ اس سبب سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے تھے اور نبیوں کو بلا وجہ قتل کر ڈالتے تھے اور یہ اس سبب سے ہوا کہ انھوں نے نافرمانی کی اور حدود سے نکل جاتے تھے) (112) قومِ یہود عبرت کا نمونہ یہود کا وجود اہل دنیا کے لیے عبرت کا نمونہ ہے۔ انسانی اسٹیج پر بیشمار قومیں نمودار ہوئیں جو عروج وزوال کے مختلف ادوار سے گزریں اور بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔ آج تاریخ میں سوائے ان کے ذکر کے کوئی چیز بھی باقی نہیں ہے۔ لیکن یہ واحد قوم ہے جو ہزاروں سال سے دنیا کے سٹیج پر زندہ ہے۔ اس نے زوال کا شکار ہونے کے بعد کبھی عروج کا منہ نہیں دیکھا۔ ایک عظیم منصب سے معزول کیے جانے کے بعد دنیا کی نگاہوں میں بھی کبھی اسے عزت نہیں مل سکی۔ اللہ نے شاید اس کو اسی لیے زندہ رکھا ہے تاکہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ جو قوم اللہ کی ناشکرگزاری کے جرم میں ماخوذ ہوتی ہے اس کے طور اطوار کیا ہوتے ہیں اور وہ کن حوادث کا شکار ہوتی ہے۔ اس قوم کے لیے سنبھل جانے کا آخری موقع آنحضرت ﷺ کی بعثت مبارکہ تھی۔ لیکن اس موقعہ کو کھو دینے کے بعد دوسرا اس کے لیے کوئی موقع نہیں تھا۔ اس لیے وہ بار بار ایسے مصائب کا شکار ہوتی گئی جس سے دوسری قومیں عبرت حاصل کرسکتی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس قوم کے افراد میں غیر معمولی ذہانت پائی جاتی ہے، اس نے بڑے بڑے سائنسدان پیدا کیے ہیں۔ عالی دماغ لوگ اس قوم میں پید اہوتے رہے ہیں، لیکن اللہ کی طرف سے جو ذلت اس پر تھوپ دی گئی ہے وہ کبھی عزت میں تبدیل نہیں ہوسکی۔ ان کی ذہانتیں کبھی خیر کو بالا بلند کرنے میں کام نہ آئیں۔ ان کی ایجادات ہمیشہ ظلم کا ذریعہ بنیں۔ ان کی منصوبہ بندی کی صلاحیت ہمیشہ سازشوں میں استعمال ہوتی رہی۔ اس نے علم کے نام سے دنیا میں وہ وہ برائیاں پھیلائی ہیں، جن کا تصور ہی کپکپا دینے کے لیے کافی ہے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ جس ملک میں بھی رہے ہیں بالآخر وہاں سے نکالے گئے ہیں اور کبھی بھی انھیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ یہ دنیا کی امیر ترین قوم سمجھی جاتی ہے۔ لیکن ان کی دولت کبھی خیر کے کام نہیں آئی۔ گزشتہ صدی میں جرمنی میں، ہنگری میں، اٹلی میں، زیکوسلاوی کہ (چیکو سلواکیہ) میں اور دوسرے ملکوں میں باوجود ان کی خوشحالی اور امارت کے جو ان کی گت بن چکی ہے اور جس طرح کا سلوک ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے، وہ یہ بات بتانے کے لیے کافی ہے کہ ذلت کی پھٹکار کسے کہتے ہیں ؟ اور اس آیت کریمہ میں جو فرمایا گیا ہے اس کا مفہوم کیا ہے ؟ ایک غلط فہمی کا ازالہ بعض لوگوں کو یہ خیال گزرتا ہے کہ ماضی میں یہ قوم جیسی کچھ بھی رہی ہو لیکن آج تو اس کی ایک خاص حیثیت ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے۔ وہ نہایت محدود افرادی قوت کے باوجود ایک بڑے علاقے کو فتح کرچکی ہے۔ وسائل کی انتہائی کمی ہونے کے باوجود وہ سائنسی طور پر اتنی ترقی یافتہ ہوگئی ہے کہ عرب اپنی سارے وسائل کے باوجود اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وہ اپنے جغرافیے کے اعتبار سے عربوں کے وسیع صحرا کے مقابلے میں ایک گٹھلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ عرب اتنی بڑی افرادی قوت رکھتے ہیں کہ اگر وہ اس کی طرف منہ کر کے تھوکنا شروع کردیں تو یہ قوم شاید اس کے سیل میں بہہ جائے۔ لیکن آج وہ عربوں کے سینے پر چڑھ کر مونگ دل رہی ہے اور عرب بےبسی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر شبہ ہونے لگتا ہے کہ قرآن کریم نے جس ذلت اور مسکنت کی بات کہی ہے یہ تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صورت حال فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک سراب ہے جس کو ہم حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں جو آج نازل نہیں ہوئیں، بلکہ ڈیڑھ ہزار سال سے اسے قرآن کریم میں پڑھا جا رہا ہے اس کی پوری منظر کشی کی گئی ہے اور ڈیڑھ ہزار سال پہلے بتادیا گیا تھا کہ یہ قوم ہر جگہ ذلیل ہو کر رہے گی بجز دو صورتوں کے۔ ایک حَبْلُ مِّنَ اللّٰہِ اور دوسرا حَبْلُ مِّنَ النَّاسٍ ۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں : فِی الْکَلَامِ اِخْتَصَارٌ وَالْمَعْنٰی اِلَّا اَنْ یَّعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ مِّنَ اللّٰہِ …الخ یعنی اس کلام میں اختصار ہے۔ اس میں اَنْ یّعْتَصِمُوْا محذوف ہے یعنی ذلت اور مسکنت اس قوم کا مقدر بنادی گئی ہے۔ یہ جہاں بھی رہیں گے ذلیل سمجھے جائیں گے۔ وقتی طور پر کہیں انھیں عروج مل بھی جائے وہ پائیدار نہیں ہوگا۔ وہی عروج ایک وقت گزرنے کے بعد ان کے لیے تباہی کا باعث ہوگا۔ جیسے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہوتا رہا ہے۔ اسی طرح ان پر مسکنت کی پھٹکار ماری گئی ہے یعنی یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی عزت نفس سے محروم رہیں گے۔ قومیں انھیں اپنے حق میں استعمال کریں گی اور یہ کرائے کے بدمعاشوں کی طرح ان کی خدمت بجا لائیں گے۔ لوگ ان کی بدمعاشی کو ان کی عزت خیال کریں گے حالانکہ بدمعاش کی بظاہر عزت حقیقت میں عزت نہیں ہوتی۔ آج بھی باوجود اس کے کہ انھیں ایک مضبوط ملک میسر ہے اور وہ ایٹمی طاقت بن چکے ہیں، لیکن دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جو انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہو اور مزید یہ کہ یہ اپنے ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی خدمت بجا لا رہے ہیں۔ عیسائیت جو صلیبی جنگوں کے زمانے سے مسلمانوں کی تباہی کے درپے ہے اور اہل مغرب اور امریکہ مختلف لبادے اوڑھ کر ہمیشہ مسلمانوں کی تباہی کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی سے انھوں نے مسلمانوں کی تباہی کے لیے عربوں کے دل میں ایک خنجر کی طرح انھیں گاڑ رکھا ہے اور ان سے وہ وہی کام لے رہے ہیں جیسے بستی کے چوہدری کرائے کے بدمعاشوں سے کام لیتے ہیں۔ وہ بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک آزاد ملک میسر آگیا ہے حالانکہ وہ مغرب و امریکہ کے آلہ کار ہیں اور وہ ان سے وہ کام لے رہے ہیں جو ان کے لیے خود کرنا مشکل ہوتا اور جب کبھی وہ محسوس کریں گے کہ یہ ہمارا پروردہ ہمارے ہاتھوں سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے تو پھر اسے تباہ کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ یہی بات قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں فرمائی ہے کہ ان کے دنیا میں زندہ رہنے اور کسی حد تک عزت حاصل کرنے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں یعنی اسلام قبول کرلیں تو پھر یہ مسلمانوں کا حصہ ہوں گے اور ان کی تاریخ مسلمانوں کی تاریخ ہوگی اور یا مسلمانوں سے معاہدہ کرلیں کیونکہ حبل کا معنی جس طرح رسی ہے اسی طرح یہ لفظ معاہدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے ملک میں ذمی بن کر یا معاہد بن کر رہنا قبول کرلیں تو اس صورت میں ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی۔ چناچہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ گزشتہ صدیوں میں انھیں آرام اور عزت کی زندگی صرف مسلمانوں ملکوں میں میسر آئی ہے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ ان سے فیاضانہ برتائو کیا لیکن یہ اپنی عقربی فطرت سے مجبور ہیں۔ جب بھی ان کا بس چلتا ہے یہ نیش زنی ضرور کرتے ہیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لوگوں کی رسی کو پکڑ لیں یعنی کسی بڑی قوت کی پناہ میں آجائیں، ان کے مفادات کے ایجنٹ بن کر اپنے لیے مراعات حاصل کرلیں۔ آج کا اسرائیل اس دوسری حیثیت کا حامل ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی کوششوں سے اسے فلسطین میں جگہ ملی۔ عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے اور تاریخ کے چہرے کو بگاڑتے ہوئے یہود کو فلسطین میں بسایا گیا اور پھر انھیں افرادی قوت مہیا کرنے کے لیے روس نے پورے ملک میں پھیلے ہوئے یہود کو اکٹھا کر کے اپنے جہازوں کے ذریعے فلسطین پہنچایا۔ اس طرح سے وہ تمام قوتیں جو مسلمانوں کی بدترین دشمن ہیں انھوں نے اسلام دشمنی میں یہود کے لیے آسانیاں مہیا کیں، ہر طرح اسے سپورٹ کیا اور دیکھے دیکھتے اسے ایٹمی قوت میں تبدیل کردیا۔ اب اس ملک کے دفاع کی فکر یہود کو شاید اتنی نہ ہو جتنی امریکہ اور برطانیہ کو ہے۔ یہ ایک طرح سے امریکہ اور مغرب کی چھائونی ہے۔ جسے بوقت ضرورت وہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس پوری تفصیل سے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے یہود کی بقا کے لیے جو راستہ تجویز کیا تھا اسی راستے پر چل کر وہ آج ایک ملک قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ طاقتور ملکوں کی رسی ہے جسے تھام کر ان لوگوں نے اپنے لیے وسائلِ حیات اور ترقی کے وسائل پیدا کیے ہیں۔ یہود پر ذلت و مسکنت کے اسباب یہود پر جو ذلت اور مسکنت کی پھٹکار پڑی اور جس طرح یہ اللہ کے غضب کے مستحق ٹھہرے آیت کریمہ کے آخر میں اس کے اسباب بیان فرمائے گئے ہیں۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ … الخ یہود باوجود حامل دعوت امت ہونے اور باوجود انبیاء کرام کی اولاد ہونے کے اس لیے اپنے انجامِ بد کو پہنچے کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں۔ جب کسی امت کو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی امانت سپرد کرتا ہے تو پھر اس کی رفعت اور سربلندی اس امانت کی پاسداری میں ہوتی ہے۔ وہ جس قدر اللہ کے احکام کی بجا آوری اور اس کے نفاذ کے لیے مخلصانہ کوشش جاری رکھے گی اسی قدر اللہ کی عنایات اس کے شامل حال ہوں گی۔ لیکن جب وہ اپنی اصل حیثیت کو بھول کر دنیا کی دوسری قوموں کی طرح دنیا طلبی اور حبِّ دنیا میں ڈوب جائے گی، جلبِ زر اس کا مقصد بن جائے گا اور وہ دنیا کے لیے جئے گی اور دنیا کے لیے مرے گی تو پھر باقی قوموں کو تو اللہ تعالیٰ مہلت عطا فرماتے رہتے ہیں لیکن اس امت کو جو اللہ کے دین کی علمبردار اور پاسدار تھی مہلت نہیں ملتی اور اگر مہلت دی جاتی ہے تو اسے دنیا میں عبرت بنا کے رکھا جاتا ہے۔ چناچہ ہمیں تاریخ میں دونوں صداقتوں کی شہادت ملتی ہے۔ قوم عاد وثمود تباہ کردی گئیں، لیکن قوم یہود عبرت کے لیے زندہ رکھی گئی ہے اور اس کی تاریخ کے مختلف ادوار اس کا عبرت ہونا بار بار ظاہر کرچکے ہیں۔ غضب خدا کا کہ جس قوم کو نبیوں کی اولاد ہونے پر فخر ہے اور وہ اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے ہیں وہی اللہ کی آیات یعنی کتاب خداوندی کو بدلتے اور اسے عضومعطل بنا کے رکھ دیتے ہیں اور انہی کے ہاتھوں اللہ کے نبی قتل ہوتے رہے ہیں۔ جب بھی نبیوں نے انھیں راہ راست پہ لانے کے لیے ان کی بد اعمالیوں پر تنقید کی اور ان کے سامنے آئینہ رکھا تاکہ وہ اپنی اصل شکل دیکھ سکیں تو بجائے اپنی شکل کی اصلاح کرنے کے انھوں نے آئینہ توڑنے میں عافیت سمجھی۔ حضرت ذکریا (علیہ السلام) کو سنگسار کیا گیا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا سر قلم کیا گیا اور نہ جانے کتنے انبیاء ان کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کر گئے۔ بنی اسرائیل کے سب سے آخری پیغمبر جو غیر معمولی شان سے تشریف لائے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انھیں بھی انھوں نے صلیب پر پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بِغَیْرِحَقٍّ کا مفہوم یہاں قرآن کریم نے نبیوں کے قتل کے سلسلے میں بِغَیْرِحَقٍّ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ بنی اسرائیل نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اللہ کے نبی تو معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی ایسا گناہ سرزد نہیں ہوتا جس سے ان کا خون مباح ہوجائے۔ وہ تو جب بھی قتل کیے جائیں گے بےگناہ اور ناحق ہی قتل کیے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہاں بِغَیْرِحَقٍّ کے استعمال کا کیا مفہوم ہے ؟ بات یہ ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مقتول تو اپنے آپ کو بےگناہ سمجھتا ہے لیکن قاتل اسے گنہگار سمجھ کر قتل کرتا ہے یا عدالت اسے گنہگار سمجھ کر سزا دیتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے کہ بنی اسرائیل نے جب بھی کسی نبی کو قتل کیا ہے تو یہ سمجھ کر نہیں کیا کہ جسے ہم قتل کر رہے ہیں وہ قتل کا واقعی سزاوار ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس نبی کے قتل کو قتل ناحق سمجھ کر کرتے رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مقدمے کی پوری روداد اب تاریخ کی روشنی میں آچکی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معصوم اور بےگناہ سمجھتی تھی۔ اس لیے وہ چاہتی تھی کہ انھیں چھوڑ دیا جائے۔ لیکن بنی اسرائیل کے اصرار پر عدالت نے انھیں سزا دی اور کہا جاتا ہے کہ عدالت کے جج نے سزا کا حکم سنانے سے پہلے اپنے ہاتھ دھو کر لوگوں پر واضح کیا کہ میں اس ظلم سے بری ہوں۔ یہ سب کچھ تمہارے اصرار پر کر رہا ہوں۔ حیرانی کی بات ہے کہ اللہ کے نبی جو انسانیت کے گل سرسبد ہوتے ہیں اور انھیں کے سہارے انسانیت سعادت اور کمال کے مدارج طے کرتی ہے، لیکن یہود کا ان کے قتل پر اس حد تک دلیر ہوجانا ناقابلِ فہم بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن قرآن کریم اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ( یہود یہ ناقابلِ فہم حرکت اس لیے کر گزرے کہ وہ نافرمان اور حد سے گزر جانے والے لوگ تھے) جو قوم اللہ کے احکام کی پرواہ نہ کرے اور اسے اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کا خوف لاحق نہ ہو اور جو اللہ کی حدود کو پامال کرتے ہوئے نہ شرمائے اور نہ خوف کھائے ایسی قوم سے پیغمبروں کا قتل کوئی بڑی بات نہیں۔ امتِ مسلمہ آخری امت ہے۔ جسے دنیا کی اصلاح کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس امت میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ البتہ ! نبیوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے علمائِ کرام، مجتہدینِ عظام اور مجددین پیدا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے تجدید و احیائے دین کا کام لیں گے اور یہ لوگ اللہ کی دھرتی پر اللہ کی دلیل ہوں گے۔ چناچہ امت مسلمہ میں گذشتہ صدیوں میں فی الواقع ایسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے اور انھوں نے ہر قربانی دے کر امت کی اصلاح کی کوشش کی۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہی اللہ کی برگزیدہ ہستیاں جو اصلاحِ امت کے لیے پیدا کی گئیں اس امت کے ہاتھوں کبھی عافیت میں نہ رہ سکیں۔ جس نے بھی ان کے سامنے حق کہا اس کی رات آرام سے نہیں کٹی۔ کتنے ایسے علماء گزرے ہیں جنھیں شہید کیا گیا، خود مسلمان ریاستوں میں بڑے بڑے علماء حوالہ زنداں کیے گئے۔ امام ابوحنیفہ جیسا عظیم آدمی جیل میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ امام احمد ابن حنبل پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے۔ ہماری قریبی تاریخ میں اور پاکستان جیسا عظیم ملک بن جانے کے بعد اس ملک میں اللہ والوں پر کیا کیا قیامت یں نہ ٹوٹیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کسی قوم میں اللہ کی نافرمانی عام ہوجاتی ہے اور وہ حدود اللہ کو پامال کرنے میں دلیر ہوجاتی ہیں، اس کے بعد اس کے لیے بڑا سے بڑا جرم کرنا بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں رہتی۔
Top