Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 112
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ
ضُرِبَتْ : چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں اِلَّا : سوائے بِحَبْلٍ : اس (عہد) مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَحَبْلٍ : اور اس (عہد) مِّنَ النَّاسِ : لوگوں سے وَبَآءُوْ : وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے (کے) وَضُرِبَتْ : اور چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَسْكَنَةُ : محتاجی ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے تھے الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھ جاتے
تھوپ دی گئی ہے ان پر ذلت وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی عہد ہو یا لوگوں کی طرف سے کوئی عہدہو اور وہ لوٹے اللہ کا غْضب لے کر۔ اور مار دی گئی ہے ان پر مسکنت۔ یہ سب کچھ اس سبب سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے تھے اور نبیوں کو بلا وجہ قتل کر ڈالتے تھے اور یہ اس سبب سے ہوا کہ انھوں نے نافرمانی کی اور حدود سے نکل جاتے تھے
ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّـۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَـآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَـقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَـآئَ بِغَیْرِحَقٍّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ۔ (تھوپ دی گئی ہے ان پر ذلت وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی عہد ہو یا لوگوں کی طرف سے کوئی عہدہو اور وہ لوٹے اللہ کا غْضب لے کر۔ اور مار دی گئی ہے ان پر مسکنت، یہ سب کچھ اس سبب سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے تھے اور نبیوں کو بلا وجہ قتل کر ڈالتے تھے اور یہ اس سبب سے ہوا کہ انھوں نے نافرمانی کی اور حدود سے نکل جاتے تھے) (112) قومِ یہود عبرت کا نمونہ یہود کا وجود اہل دنیا کے لیے عبرت کا نمونہ ہے۔ انسانی اسٹیج پر بیشمار قومیں نمودار ہوئیں جو عروج وزوال کے مختلف ادوار سے گزریں اور بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔ آج تاریخ میں سوائے ان کے ذکر کے کوئی چیز بھی باقی نہیں ہے۔ لیکن یہ واحد قوم ہے جو ہزاروں سال سے دنیا کے سٹیج پر زندہ ہے۔ اس نے زوال کا شکار ہونے کے بعد کبھی عروج کا منہ نہیں دیکھا۔ ایک عظیم منصب سے معزول کیے جانے کے بعد دنیا کی نگاہوں میں بھی کبھی اسے عزت نہیں مل سکی۔ اللہ نے شاید اس کو اسی لیے زندہ رکھا ہے تاکہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ جو قوم اللہ کی ناشکرگزاری کے جرم میں ماخوذ ہوتی ہے اس کے طور اطوار کیا ہوتے ہیں اور وہ کن حوادث کا شکار ہوتی ہے۔ اس قوم کے لیے سنبھل جانے کا آخری موقع آنحضرت ﷺ کی بعثت مبارکہ تھی۔ لیکن اس موقعہ کو کھو دینے کے بعد دوسرا اس کے لیے کوئی موقع نہیں تھا۔ اس لیے وہ بار بار ایسے مصائب کا شکار ہوتی گئی جس سے دوسری قومیں عبرت حاصل کرسکتی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس قوم کے افراد میں غیر معمولی ذہانت پائی جاتی ہے، اس نے بڑے بڑے سائنسدان پیدا کیے ہیں۔ عالی دماغ لوگ اس قوم میں پید اہوتے رہے ہیں، لیکن اللہ کی طرف سے جو ذلت اس پر تھوپ دی گئی ہے وہ کبھی عزت میں تبدیل نہیں ہوسکی۔ ان کی ذہانتیں کبھی خیر کو بالا بلند کرنے میں کام نہ آئیں۔ ان کی ایجادات ہمیشہ ظلم کا ذریعہ بنیں۔ ان کی منصوبہ بندی کی صلاحیت ہمیشہ سازشوں میں استعمال ہوتی رہی۔ اس نے علم کے نام سے دنیا میں وہ وہ برائیاں پھیلائی ہیں، جن کا تصور ہی کپکپا دینے کے لیے کافی ہے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ جس ملک میں بھی رہے ہیں بالآخر وہاں سے نکالے گئے ہیں اور کبھی بھی انھیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ یہ دنیا کی امیر ترین قوم سمجھی جاتی ہے۔ لیکن ان کی دولت کبھی خیر کے کام نہیں آئی۔ گزشتہ صدی میں جرمنی میں، ہنگری میں، اٹلی میں، زیکوسلاوی کہ (چیکو سلواکیہ) میں اور دوسرے ملکوں میں باوجود ان کی خوشحالی اور امارت کے جو ان کی گت بن چکی ہے اور جس طرح کا سلوک ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے، وہ یہ بات بتانے کے لیے کافی ہے کہ ذلت کی پھٹکار کسے کہتے ہیں ؟ اور اس آیت کریمہ میں جو فرمایا گیا ہے اس کا مفہوم کیا ہے ؟ ایک غلط فہمی کا ازالہ بعض لوگوں کو یہ خیال گزرتا ہے کہ ماضی میں یہ قوم جیسی کچھ بھی رہی ہو لیکن آج تو اس کی ایک خاص حیثیت ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے۔ وہ نہایت محدود افرادی قوت کے باوجود ایک بڑے علاقے کو فتح کرچکی ہے۔ وسائل کی انتہائی کمی ہونے کے باوجود وہ سائنسی طور پر اتنی ترقی یافتہ ہوگئی ہے کہ عرب اپنی سارے وسائل کے باوجود اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وہ اپنے جغرافیے کے اعتبار سے عربوں کے وسیع صحرا کے مقابلے میں ایک گٹھلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ عرب اتنی بڑی افرادی قوت رکھتے ہیں کہ اگر وہ اس کی طرف منہ کر کے تھوکنا شروع کردیں تو یہ قوم شاید اس کے سیل میں بہہ جائے۔ لیکن آج وہ عربوں کے سینے پر چڑھ کر مونگ دل رہی ہے اور عرب بےبسی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر شبہ ہونے لگتا ہے کہ قرآن کریم نے جس ذلت اور مسکنت کی بات کہی ہے یہ تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صورت حال فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک سراب ہے جس کو ہم حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں جو آج نازل نہیں ہوئیں، بلکہ ڈیڑھ ہزار سال سے اسے قرآن کریم میں پڑھا جا رہا ہے اس کی پوری منظر کشی کی گئی ہے اور ڈیڑھ ہزار سال پہلے بتادیا گیا تھا کہ یہ قوم ہر جگہ ذلیل ہو کر رہے گی بجز دو صورتوں کے۔ ایک حَبْلُ مِّنَ اللّٰہِ اور دوسرا حَبْلُ مِّنَ النَّاسٍ ۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں : فِی الْکَلَامِ اِخْتَصَارٌ وَالْمَعْنٰی اِلَّا اَنْ یَّعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ مِّنَ اللّٰہِ …الخ یعنی اس کلام میں اختصار ہے۔ اس میں اَنْ یّعْتَصِمُوْا محذوف ہے یعنی ذلت اور مسکنت اس قوم کا مقدر بنادی گئی ہے۔ یہ جہاں بھی رہیں گے ذلیل سمجھے جائیں گے۔ وقتی طور پر کہیں انھیں عروج مل بھی جائے وہ پائیدار نہیں ہوگا۔ وہی عروج ایک وقت گزرنے کے بعد ان کے لیے تباہی کا باعث ہوگا۔ جیسے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہوتا رہا ہے۔ اسی طرح ان پر مسکنت کی پھٹکار ماری گئی ہے یعنی یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی عزت نفس سے محروم رہیں گے۔ قومیں انھیں اپنے حق میں استعمال کریں گی اور یہ کرائے کے بدمعاشوں کی طرح ان کی خدمت بجا لائیں گے۔ لوگ ان کی بدمعاشی کو ان کی عزت خیال کریں گے حالانکہ بدمعاش کی بظاہر عزت حقیقت میں عزت نہیں ہوتی۔ آج بھی باوجود اس کے کہ انھیں ایک مضبوط ملک میسر ہے اور وہ ایٹمی طاقت بن چکے ہیں، لیکن دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جو انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہو اور مزید یہ کہ یہ اپنے ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی خدمت بجا لا رہے ہیں۔ عیسائیت جو صلیبی جنگوں کے زمانے سے مسلمانوں کی تباہی کے درپے ہے اور اہل مغرب اور امریکہ مختلف لبادے اوڑھ کر ہمیشہ مسلمانوں کی تباہی کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی سے انھوں نے مسلمانوں کی تباہی کے لیے عربوں کے دل میں ایک خنجر کی طرح انھیں گاڑ رکھا ہے اور ان سے وہ وہی کام لے رہے ہیں جیسے بستی کے چوہدری کرائے کے بدمعاشوں سے کام لیتے ہیں۔ وہ بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک آزاد ملک میسر آگیا ہے حالانکہ وہ مغرب و امریکہ کے آلہ کار ہیں اور وہ ان سے وہ کام لے رہے ہیں جو ان کے لیے خود کرنا مشکل ہوتا اور جب کبھی وہ محسوس کریں گے کہ یہ ہمارا پروردہ ہمارے ہاتھوں سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے تو پھر اسے تباہ کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ یہی بات قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں فرمائی ہے کہ ان کے دنیا میں زندہ رہنے اور کسی حد تک عزت حاصل کرنے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں یعنی اسلام قبول کرلیں تو پھر یہ مسلمانوں کا حصہ ہوں گے اور ان کی تاریخ مسلمانوں کی تاریخ ہوگی اور یا مسلمانوں سے معاہدہ کرلیں کیونکہ حبل کا معنی جس طرح رسی ہے اسی طرح یہ لفظ معاہدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے ملک میں ذمی بن کر یا معاہد بن کر رہنا قبول کرلیں تو اس صورت میں ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی۔ چناچہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ گزشتہ صدیوں میں انھیں آرام اور عزت کی زندگی صرف مسلمانوں ملکوں میں میسر آئی ہے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ ان سے فیاضانہ برتائو کیا لیکن یہ اپنی عقربی فطرت سے مجبور ہیں۔ جب بھی ان کا بس چلتا ہے یہ نیش زنی ضرور کرتے ہیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لوگوں کی رسی کو پکڑ لیں یعنی کسی بڑی قوت کی پناہ میں آجائیں، ان کے مفادات کے ایجنٹ بن کر اپنے لیے مراعات حاصل کرلیں۔ آج کا اسرائیل اس دوسری حیثیت کا حامل ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی کوششوں سے اسے فلسطین میں جگہ ملی۔ عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے اور تاریخ کے چہرے کو بگاڑتے ہوئے یہود کو فلسطین میں بسایا گیا اور پھر انھیں افرادی قوت مہیا کرنے کے لیے روس نے پورے ملک میں پھیلے ہوئے یہود کو اکٹھا کر کے اپنے جہازوں کے ذریعے فلسطین پہنچایا۔ اس طرح سے وہ تمام قوتیں جو مسلمانوں کی بدترین دشمن ہیں انھوں نے اسلام دشمنی میں یہود کے لیے آسانیاں مہیا کیں، ہر طرح اسے سپورٹ کیا اور دیکھے دیکھتے اسے ایٹمی قوت میں تبدیل کردیا۔ اب اس ملک کے دفاع کی فکر یہود کو شاید اتنی نہ ہو جتنی امریکہ اور برطانیہ کو ہے۔ یہ ایک طرح سے امریکہ اور مغرب کی چھائونی ہے۔ جسے بوقت ضرورت وہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس پوری تفصیل سے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے یہود کی بقا کے لیے جو راستہ تجویز کیا تھا اسی راستے پر چل کر وہ آج ایک ملک قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ طاقتور ملکوں کی رسی ہے جسے تھام کر ان لوگوں نے اپنے لیے وسائلِ حیات اور ترقی کے وسائل پیدا کیے ہیں۔ یہود پر ذلت و مسکنت کے اسباب یہود پر جو ذلت اور مسکنت کی پھٹکار پڑی اور جس طرح یہ اللہ کے غضب کے مستحق ٹھہرے آیت کریمہ کے آخر میں اس کے اسباب بیان فرمائے گئے ہیں۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ … الخ یہود باوجود حامل دعوت امت ہونے اور باوجود انبیاء کرام کی اولاد ہونے کے اس لیے اپنے انجامِ بد کو پہنچے کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں۔ جب کسی امت کو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی امانت سپرد کرتا ہے تو پھر اس کی رفعت اور سربلندی اس امانت کی پاسداری میں ہوتی ہے۔ وہ جس قدر اللہ کے احکام کی بجا آوری اور اس کے نفاذ کے لیے مخلصانہ کوشش جاری رکھے گی اسی قدر اللہ کی عنایات اس کے شامل حال ہوں گی۔ لیکن جب وہ اپنی اصل حیثیت کو بھول کر دنیا کی دوسری قوموں کی طرح دنیا طلبی اور حبِّ دنیا میں ڈوب جائے گی، جلبِ زر اس کا مقصد بن جائے گا اور وہ دنیا کے لیے جئے گی اور دنیا کے لیے مرے گی تو پھر باقی قوموں کو تو اللہ تعالیٰ مہلت عطا فرماتے رہتے ہیں لیکن اس امت کو جو اللہ کے دین کی علمبردار اور پاسدار تھی مہلت نہیں ملتی اور اگر مہلت دی جاتی ہے تو اسے دنیا میں عبرت بنا کے رکھا جاتا ہے۔ چناچہ ہمیں تاریخ میں دونوں صداقتوں کی شہادت ملتی ہے۔ قوم عاد وثمود تباہ کردی گئیں، لیکن قوم یہود عبرت کے لیے زندہ رکھی گئی ہے اور اس کی تاریخ کے مختلف ادوار اس کا عبرت ہونا بار بار ظاہر کرچکے ہیں۔ غضب خدا کا کہ جس قوم کو نبیوں کی اولاد ہونے پر فخر ہے اور وہ اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے ہیں وہی اللہ کی آیات یعنی کتاب خداوندی کو بدلتے اور اسے عضومعطل بنا کے رکھ دیتے ہیں اور انہی کے ہاتھوں اللہ کے نبی قتل ہوتے رہے ہیں۔ جب بھی نبیوں نے انھیں راہ راست پہ لانے کے لیے ان کی بد اعمالیوں پر تنقید کی اور ان کے سامنے آئینہ رکھا تاکہ وہ اپنی اصل شکل دیکھ سکیں تو بجائے اپنی شکل کی اصلاح کرنے کے انھوں نے آئینہ توڑنے میں عافیت سمجھی۔ حضرت ذکریا (علیہ السلام) کو سنگسار کیا گیا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا سر قلم کیا گیا اور نہ جانے کتنے انبیاء ان کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کر گئے۔ بنی اسرائیل کے سب سے آخری پیغمبر جو غیر معمولی شان سے تشریف لائے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انھیں بھی انھوں نے صلیب پر پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بِغَیْرِحَقٍّ کا مفہوم یہاں قرآن کریم نے نبیوں کے قتل کے سلسلے میں بِغَیْرِحَقٍّ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ بنی اسرائیل نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اللہ کے نبی تو معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی ایسا گناہ سرزد نہیں ہوتا جس سے ان کا خون مباح ہوجائے۔ وہ تو جب بھی قتل کیے جائیں گے بےگناہ اور ناحق ہی قتل کیے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہاں بِغَیْرِحَقٍّ کے استعمال کا کیا مفہوم ہے ؟ بات یہ ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مقتول تو اپنے آپ کو بےگناہ سمجھتا ہے لیکن قاتل اسے گنہگار سمجھ کر قتل کرتا ہے یا عدالت اسے گنہگار سمجھ کر سزا دیتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے کہ بنی اسرائیل نے جب بھی کسی نبی کو قتل کیا ہے تو یہ سمجھ کر نہیں کیا کہ جسے ہم قتل کر رہے ہیں وہ قتل کا واقعی سزاوار ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس نبی کے قتل کو قتل ناحق سمجھ کر کرتے رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مقدمے کی پوری روداد اب تاریخ کی روشنی میں آچکی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معصوم اور بےگناہ سمجھتی تھی۔ اس لیے وہ چاہتی تھی کہ انھیں چھوڑ دیا جائے۔ لیکن بنی اسرائیل کے اصرار پر عدالت نے انھیں سزا دی اور کہا جاتا ہے کہ عدالت کے جج نے سزا کا حکم سنانے سے پہلے اپنے ہاتھ دھو کر لوگوں پر واضح کیا کہ میں اس ظلم سے بری ہوں۔ یہ سب کچھ تمہارے اصرار پر کر رہا ہوں۔ حیرانی کی بات ہے کہ اللہ کے نبی جو انسانیت کے گل سرسبد ہوتے ہیں اور انھیں کے سہارے انسانیت سعادت اور کمال کے مدارج طے کرتی ہے، لیکن یہود کا ان کے قتل پر اس حد تک دلیر ہوجانا ناقابلِ فہم بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن قرآن کریم اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ( یہود یہ ناقابلِ فہم حرکت اس لیے کر گزرے کہ وہ نافرمان اور حد سے گزر جانے والے لوگ تھے) جو قوم اللہ کے احکام کی پرواہ نہ کرے اور اسے اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کا خوف لاحق نہ ہو اور جو اللہ کی حدود کو پامال کرتے ہوئے نہ شرمائے اور نہ خوف کھائے ایسی قوم سے پیغمبروں کا قتل کوئی بڑی بات نہیں۔ امتِ مسلمہ آخری امت ہے۔ جسے دنیا کی اصلاح کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اس امت میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ البتہ ! نبیوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے علمائِ کرام، مجتہدینِ عظام اور مجددین پیدا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے تجدید و احیائے دین کا کام لیں گے اور یہ لوگ اللہ کی دھرتی پر اللہ کی دلیل ہوں گے۔ چناچہ امت مسلمہ میں گذشتہ صدیوں میں فی الواقع ایسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے اور انھوں نے ہر قربانی دے کر امت کی اصلاح کی کوشش کی۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہی اللہ کی برگزیدہ ہستیاں جو اصلاحِ امت کے لیے پیدا کی گئیں اس امت کے ہاتھوں کبھی عافیت میں نہ رہ سکیں۔ جس نے بھی ان کے سامنے حق کہا اس کی رات آرام سے نہیں کٹی۔ کتنے ایسے علماء گزرے ہیں جنھیں شہید کیا گیا، خود مسلمان ریاستوں میں بڑے بڑے علماء حوالہ زنداں کیے گئے۔ امام ابوحنیفہ جیسا عظیم آدمی جیل میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ امام احمد ابن حنبل پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے۔ ہماری قریبی تاریخ میں اور پاکستان جیسا عظیم ملک بن جانے کے بعد اس ملک میں اللہ والوں پر کیا کیا قیامت یں نہ ٹوٹیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کسی قوم میں اللہ کی نافرمانی عام ہوجاتی ہے اور وہ حدود اللہ کو پامال کرنے میں دلیر ہوجاتی ہیں، اس کے بعد اس کے لیے بڑا سے بڑا جرم کرنا بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں رہتی۔
Top