Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 142
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ
اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم سمجھتے ہو ؟ اَنْ : کہ تَدْخُلُوا : تم داخل ہوگے الْجَنَّةَ : جنت وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَعْلَمِ اللّٰهُ : اللہ نے معلوم کیا الَّذِيْنَ : جو لوگ جٰهَدُوْا : جہاد کرنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَيَعْلَمَ : معلوم کیا الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (بےآزمائش) بہشت میں جا داخل ہو گے حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور (یہ بھی مقصود ہے) کہ وہ ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کرے
ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے 1 ؂۔ استفہام انکاری اور ام منقطعہ ہے۔ و لما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ویعلم الصابرین حالانکہ تمہارے مجاہدوں کا اللہ نے (لوگوں کی نظر میں) امتیاز ابھی تک نہیں کیا اور نہ صبر کرنے والوں کا امتیاز کیا۔ یعنی ابھی تک نہ تم نے جہاد کیا 2 ؂۔ دوسرے یَعْلَمَ سے پہلے اَنْ مضمر ہے اور واؤ جمع کے لیے ہے جیسے لاتاکُلِ السَّمَکَ وَ تَشْرَبَ اللَّبَنَ یعنی مچھلی اور دودھ کو ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کو حالت جزم میں قرار دے کر مفتوح پڑھا جائے کیونکہ دو ساکن جمع ہیں اور ساکن سے پہلے حرف (لام) پر فتح ہے۔ ابن ابی حاتم نے بطریق عوفی حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ کچھ صحابی کہا کرتے تھے کاش ہم بھی بدر والوں کی طرح دشمنوں کو مارتے یا یوں کہتے کہ کاش بدر کے دن کی طرح ہم کو بھی کسی دن مشرکوں سے لڑنے کا موقع ملتا اور اس روز ہمارا اچھا امتحان ہوتا یا ہم شہادت پا کر جنت میں شہیدوں کی زندگی اور رزق کے طلب گار ہوتے لیکن (آزمائش کے وقت) سوائے ان کے جن کو اللہ نے چاہا کوئی (میدان جنگ میں) نہ ٹھہر سکا۔ اس پر اللہ نے مندرجہ ذیل آیت نازل فرمائی۔
Top