Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 142
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ
اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم سمجھتے ہو ؟ اَنْ : کہ تَدْخُلُوا : تم داخل ہوگے الْجَنَّةَ : جنت وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَعْلَمِ اللّٰهُ : اللہ نے معلوم کیا الَّذِيْنَ : جو لوگ جٰهَدُوْا : جہاد کرنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَيَعْلَمَ : معلوم کیا الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے جبکہ ابھی تک اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں 129 اور صبر کرنے والے کون ہیں ؟
129 یعنی جنت کے جن اعلیٰ درجات اور مقامات پر اللہ تعالیٰ تمہیں پہنچانا چاہتا ہے کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ بس یوں ہی بیٹھے بیٹھے آرام سے وہاں جاپہنچو گے اور اللہ تمہارا امتحان لے کر یہ نہ دیکھے گا کہ جہاد میں حصہ لینے والے اور اس میں ثابت قدم رہنے والے کون کون ہیں۔ جنت کے بلند درجات پر تو وہی لوگ فائز ہوں گے جو اللہ کی راہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں بھی اللہ کے دیکھنے یا جاننے سے وہی مراد ہے جو سابقہ آیت میں مذکور ہوئی یعنی (وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ 140؁ۙ ) 3 ۔ آل عمران :140) کہ مسلمانوں کی پوری جماعت یہ صورت حال بچشم خود ملاحظہ کرے۔ مکی دور میں مسلمانوں پر قریش مکہ کی طرف سے بےپناہ مظالم اور مصائب ڈھائے جارہے تھے۔ حضرت خباب بن ارت ان مصائب سے کچھ گھبرا سے گئے اور چاہا کہ جاکر رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمائیں کہ جس وقت کی آپ بشارت سناتے ہیں وہ کب آئے گا ؟ چناچہ وہ خود راوی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں ایک چادر پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ اس زمانہ میں ہم مشرک لوگوں سے سخت تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ان مشرکوں کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے ؟ یہ سنتے ہی آپ (تکیہ چھوڑ کر) سیدھے بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ (غصے سے) سرخ ہوگیا اور فرمایا : تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں۔ مگر وہ اپنے سچے دین سے پھرتے نہیں تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلا دیا جاتا اور ان کے دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ ایک دن اس کام کو ضرور پورا کرے گا (بخاری، باب بنیان الکعبہ باب مالقی النبی واصحابہ من المشرکین بمکۃ) اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ مگر تم لوگ تو جلدی مچاتے ہو گویا رسول اللہ ﷺ نے بھی حضرت خباب بن ارت کو صبر و استقلال اور ثابت قدمی کا وہی سبق سکھلایا جو اس آیت میں مسلمانوں کو سکھلایا جارہا ہے۔
Top