Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 10
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا سَتُغْلَبُوْنَ : عنقریب تم مغلوب ہوگے وَتُحْشَرُوْنَ : اور تم ہانکے جاؤگے اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وَبِئْسَ : اور برا الْمِهَادُ : ٹھکانہ
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا۔ بےشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
یا یھا النبی اتق اللہ . اے نبی ! اللہ سے ڈرتے رہو۔ نبی کے لفظ سے خطاب کر کے تقویٰ کا حکم دیا ‘ محمد نہیں فرمایا ‘ اس سے تقویٰ کی اہمیت اور عظمت بتانا مقصود ہے کہ نبی ﷺ کو بھی اللہ سے ڈرنا اور تقویٰ رکھنا ضروری ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ان آیات کا نزول ابو سفیان بن حرب ‘ عکرمہ بن ابوجہل اور ابوالاعور ‘ عمرو بن سفیان سلمی کے حق میں ہوا۔ جنگ اہد کے بعد یہ تینوں شخص مدینہ میں آکر سر گروہ منافقین عبد اللہ بن ابی کے پاس ٹھہرے (اور رسول اللہ سے گفتگو کرنے کی درخواست کی) حضور ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ چناچہ عبد اللہ بن ابی ‘ عبد اللہ بن سعد اور طعمہ بن ابیرق خدمت گرامی میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ سے درخواست کی کہ آپ لات ‘ عزیٰ اور مناۃ کا تذکرہ چھوڑ دیجئے ‘ ہمارے ان معبودوں کا ذکر برائی کے ساتھ نہ کیجئے اور یہ کہہ دیجئے کہ جو شخص ان کو پوجے گا ‘ یہ معبود اس کی شفاعت کریں گے۔ اگر آپ ایسا کرلیں گے تو ہم آپ کے اور آپ کے رب کا ذکر برائی کے ساتھ نہیں کریں گے اور آپ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس وقت حضرت عمر بن خطاب رسول اللہ کے پاس موجود تھے۔ حضور ﷺ کو کافروں کی یہ بات بہت شاق گزری۔ حضرت عمر نے فرمایا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کو قتل کر دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں ان کو امن دے چکا ہوں۔ پھر فرمایا : نکل جاؤ ‘ تم پر اللہ کی لعنت اور غضب۔ چناچہ حضور ﷺ نے ان کو مدینہ سے نکال دینے کا حکم دے دیا۔ اس پر اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ خطاب کا رخ اگرچہ رسول اللہ کی طرف ہے لیکن تقویٰ کا حک مامت کو دینا مقصود ہے۔ ضحاک نے کہا : آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ اللہ سے ڈریں اور ان لوگوں سے آپ نے جو عہد کیا ہے ‘ اس کو نہ توڑیں۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ امر بالتقویٰ سے مراد ہے تقویٰ پر قائم رہنے کا حکم تاکہ دوسرے ممنوعات سے بازداشت ہوجائے۔ ولا تطع الکفرین . اور ان کافروں کا کہا نہ مانیں۔ یعنی عکرمہ ‘ ابو سفیان اور ابوالاعور کا کہا نہ مانیں۔ والمنفقین . اور (مدینہ کے) منافقوں کا بھی کہا نہ مانیں۔ یعنی عبد اللہ بن ابی ‘ عبد اللہ بن سعد اور طعمہ بن ابیرق کی بات نہ مانیں۔ ان اللہ کان علیما حکیما بیشک اللہ علیم و حکیم ہے۔ یعنی اپنی مخلوق کو جانتا ہے ‘ مخلوق کے مصالح و مفاسد سے واقف ہے اور اپنی حکمت کے مطابق حکم دیتا ہے۔
Top