Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 39
فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْئَلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖۤ اِنْسٌ وَّ لَا جَآنٌّۚ
فَيَوْمَئِذٍ : تو اس دن لَّا يُسْئَلُ : نہ پوچھا جائے گا عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ : اپنے گناہوں کے بارے میں اِنْسٌ وَّلَا جَآنٌّ : کوئی انسان اور نہ کوئی جن
اس روز نہ تو کسی انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں پرسش کی جائے گی اور نہ کسی جن سے
فیومئذ لا یسئل عن ذنبہ انس ولاجان تو اس روز کسی انسان و جن سے اسکے جرم کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا ‘ یعنی یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کام کیا تھا یا نہیں کیا تھا کیونکہ اللہ کو تو اس کا علم پہلے ہی ہوگا اور اعمالناموں والے فرشتے اعمال لکھ ہی چکے ہوں گے اور عذاب کے فرشتے صورت دیکھتے ہی پہچان لیں گے۔ ہاں ! اعمال کی باز پرس ہوگی یعنی یہ پوچھا جائے گا کہ جب تم کو ممانعت کردی گئی تھی تو تم نے ایسا کیوں کیا اور جب کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا تو ایسا کیوں نہیں کیا۔ اس وضاحت کے بعد اس آیت میں اور آیت : فَوَرَبِّکَ لَنَسْاَلَنُّھُمْ اَجْمَعِیْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ میں تضاد پیدا نہیں ہوتا۔ مجاہد کی روایت میں حضرت ابن عباس کا یہی تشریحی قول آیا ہے حسن اور قتادہ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ دونوں آیتوں میں اختلاف دور کرنے کے سلسلے میں حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی آیا ہے کہ مجرموں کافروں سے سوال رحمت و شفاعت نہیں ہوگا۔ سوال نہ ہونے کا یہی مطلب ہے بلکہ زجر و توبیخ کے طور پر باز پرس ہوگی۔ سوال کیے جانے سے یہی مراد ہے۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : قیامت میں مختلف مقامات ہوں گے ‘ کسی مقام پر سوال کیا جائے گا (اس لیے آیت لنسالنھم اجمعین ... صحیح ہے) اور کسی مقام پر سوال نہیں ہوگا (اس لیے آیت : لا یسئل عن ذنبہٖ صحیح ہے) ابو العالیہ نے کہا : آیت کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کی باز پرس غیر مجرم سے نہیں ہوگی۔
Top