Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 39
فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْئَلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖۤ اِنْسٌ وَّ لَا جَآنٌّۚ
فَيَوْمَئِذٍ : تو اس دن لَّا يُسْئَلُ : نہ پوچھا جائے گا عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ : اپنے گناہوں کے بارے میں اِنْسٌ وَّلَا جَآنٌّ : کوئی انسان اور نہ کوئی جن
پس اس روز کسی انسان اور کسی جن سے اس کے گناہ کی بابت پوچھا نہیں جائے گا
فَیَوْمَئِذٍ لاَّ یُسْئَلُ عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنْسٌ وَّلاَجَآنٌّ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰـھُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الجن : 39 تا 42) (پس اس روز کسی انسان اور کسی جن سے اس کے گناہ کی بابت پوچھا نہیں جائے گا۔ تو اے جن و انس ! تم اپنے رب کے کن کن احسانات کا انکار کرو گے۔ مجرم اپنی علامتوں سے پہچان لیے جائیں گے، اور انھیں پیشانی کے بال اور پائوں سے پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔ پس اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلائو گے۔ ) منکرین کا جرم چہروں سے عیاں ہوگا تم اولاً تو وقوع قیامت ہی کے منکر ہو، لیکن جو لوگ مفروضے کی حد تک قیامت کو تسلیم کرتے ہیں انھیں بھی یہ اطمینان ہے کہ وہاں ہمارے جرائم کی کسے خبر ہوگی اور زندگی بھر کے جرائم کون شمار کرسکتا ہے۔ انھیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس دن کسی انسان اور کسی جن سے ان کے جرائم اور ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ان سے اگر پوچھا جائے گا تو گناہ کے محرکات کے بارے میں سوال ہوگا، ورنہ قیامت کی ہولناکی اور اس کی ہیبت کی وجہ سے ہر مجرم کا اترا ہوا چہرہ اور پتھرائی ہوئی آنکھیں اس کے جرائم کے ثبوت کے لیے کافی ہوں گی۔ آج جو اس نے اس ساری صورتحال کو باقی رکھا ہے اور آج اگر مجرم جرائم کی دنیا سے نکلنا چاہیں تو کسی وقت بھی ان کی توبہ قبول ہوسکتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے وہ احسانات ہیں کہ اگر آج ان سے پوچھا جائے تو یہ ان احسانات کو جھٹلانے پر قادر نہیں۔ تو ترجیع کی آیت میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ تیسری آیت میں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ مجرمین سے ان کے جرائم کے بارے میں سوال کیوں نہیں کیا جائے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جرائم ان کے چہروں پر لکھے ہوں گے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مجرم لوگوں کے چہرے اپنے جرائم کی وجہ سے ایسے سیاہ ہوں گے کہ وہ مجرم ہونے کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔ اور نیک لوگوں کے چہرے ان کی نیکیوں کی وجہ سے روشن ہوں گے۔ اور پھر ان مجرموں کو ان کی پیشانیوں کے بالوں اور ان کے قدموں سے پکڑ کر انھیں گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ ان کے پکڑے جانے کی تصویر کھینچی گئی ہے اس سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ آج یہ لوگ استکبار کا شکار اور کسی اچھی بات سننے کے روادار نہیں۔ لیکن قیامت کے روز ذلت سے انھیں گھسیٹتے ہوئے جہنم میں پھینکا جائے گا اور یہی ان کی اصل حیثیت ہوگی۔
Top