Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 9
وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ
وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو۔ تولو الْوَزْنَ : وزن کو بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَلَا : اور نہ تُخْسِرُوا : خسارہ کر کے دو ۔ نقصان دو الْمِيْزَانَ : میزان میں۔ ترازو میں
اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو۔ اور تول کم مت کرو
واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان . ” اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک ٹھیک رکھو اور تول کو نہ گھٹاؤ۔ “ یعنی وزن کو ٹھیک ٹھیک رکھو ‘ وزن میں کمی نہ کرو۔ اللہ نے ٹھیک ٹھیک وزن کرنے کا حکم دیا۔ پہلے طغیان کی یعنی حق سے زیادہ لینے کی ممانعت فرما دی۔ پھر خسران کی یعنی وزن میں کمی کرنے کی نہی فرما دی اور لفظ میزان کو صراحتہً تین بار حکم کی تاکید کے لیے ذکر کیا۔ مسئلہ زید نے کوئی چیز ناپ تول کر خرید لی۔ پھر بکر کے ہاتھ وہ چیز ناپ تول کر فروخت کردی۔ اس صورت میں بکر پر لازم ہے کہ اگر وہ اس چیز کو خالد کے ہاتھ فروخت کرنا یا خود استعمال کرنا چاہتا ہے تو خود ناپ تول کر بیچے یا ناپ تول کر اپنے استعمال میں لائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ زید نے ناپ تول میں بھولے سے کچھ زیادتی کردی اور اس زیادتی کا مالک بکر تو ہو نہیں سکتا وہ زیادہ مال زید ہی کا ہے اور غیر کے مال میں تصرف حرام ہے ‘ جس سے پرہیز لازم ہے۔ جب تک غلہ کی ناپ دو پیمانوں سے نہ ہوجائے ‘ ایک پیمانہ بیچنے والے کا اور دوسرا ناپ کر خریدنے والے کا اس وقت تک مشتری کے لیے کسی کے ہاتھ اس غلہ کو فروخت کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی فرمایا ہے۔ (رواہ ابن ماجہ و ابن اسحق) ابن اسحاق نے اس روایت کو معلل کہا ہے۔ (رواہ البزار من حدیث ابی ہریرہ) دو ضعیف سلسلوں سے یہ حدیث حضرت انس اور حضرت ابن عباس کی روایت سے بھی آئی ہے۔ عبدالرزاق نے یحییٰ بن کثیر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت حکیم بن حزام باہم چھواروں کی خریدو فروخت کر کے بوریوں میں بھر دیتے تھے پھر اسی ناپ کو (یوں ہی بھرا ہوا) کسی تیسرے شخص کے ہاتھ فروخت کردیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرما دی تاوقتیکہ تیسرے شخص کے ہاتھ فروخت کرتے وقت بائع ناپ تول کر نہ دے (یوں ہی بوروں میں بھرا ہوا غلہ وغیرہ بیچنا جائز نہیں) ابن ہمام نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے طرق روایت کثیر ہیں۔ ائمہ (رح) نے بھی اس حدیث کو قبول کیا ہے۔ ہمارے اس قول کے موافق امام شافعی ‘ امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) کے اقوال بھی ہیں۔ مسئلہ فروخت کے وقت سے پہلے اگر فروخت کرنے والے نے غلہ وغیرہ ناپ تول کر رکھ لیا تو خواہ خریدار کے سامنے ہی ناپا تولا ہو مگر وہ ناپ تول قابل اعتبار نہیں۔ وہ بائع کا ناپ تول (جو فروخت کرنے کے لیے ضروری ہے) نہیں مانا جائے گا اور وہ ناپ تول بھی کافی نہیں سمجھا جائے گا جو خریدو فروخت کی گفتگو طے ہوجانے کے بعد خریدار کی غیر موجودگی میں بائع کر کے رکھ لے کیونکہ فروخت شدہ چیز کو خریدار کے سپرد کرنا ضروری ہے اور سپردگی کے لیے خریدار کے سامنے ناپنا تولنا لازم ہے۔ اگر مشتری کی موجودگی میں بائع نے ناپ تول کردی تو کیا یہ کیل و وزن کافی ہے یا مشتری کو قبضہ کرنے کے لیے دوبارہ خود ناپ تول کرنی چاہیے۔ حدیث مذکورہ بالا سے بظاہر مؤخر الذکر حکم مستفاد ہو رہا ہے کیونکہ حدیث میں صاع (ناپ تول) بائع اور صاع مشتری دونوں کو ضروری قرار دیا ہے لیکن صحیح ترین فیصلہ یہ ہے کہ صورت مذکورہ میں خریدار کے سامنے عقد کے وقت بائع کا ناپنا ‘ تولنا کافی ہے کیونکہ اصل مقصد صحیح مقدار کا معلوم ہونا ہے اور مقدار کا صحیح علم صرف بائع کے ناپ تول سے جو خریدار کے سامنے ہو حاصل ہوجاتا ہے اور سپردگی کا معنی بھی (مشتری کے سامنے ناپ تول ہونے کی وجہ سے) موجود ہے۔ (اس لیے صورت مذکورہ میں بائع کا ناپ تول کافی ہے) رہی حدیث تو اس کا محل دونوں اوصاف کا ایک شخص میں اجتماع ہے۔ مثلاً زید نے بکر سے بیع سلم کی ‘ بکر کو روپیہ دے دیا اور غلہ کی وصولی دو ماہ کے بعد قرار پائی۔ اس صورت میں زید رب السّلم (قیمت کا دیوال اور غلہ کا لیوال) ہوا اور بکر مسلم الیہ (قیمت کا لیوال اور غلہ کا دیوال) ہوا۔ جب دو ماہ گزر گئے تو بکر نے زید کو دینے کے لیے کچھ غلہ خریدا اور خود قبضہ نہیں کیا بلکہ زید سے کہہ دیا کہ تم خالد سے جا کر غلہ لے لو یہ ناجائز ہے۔ کیونکہ دونوں اوصاف زید میں جمع ہوگئے۔ ایک ناپ تول اس لیے ہونا چاہیے کہ بکر نے خالد سے غلہ خریدا ہے ‘ دوسرا ناپ تول اس لیے ضروری ہے کہ زید کو مسلم الیہ سے غلہ وصول کرتے وقت ناپ تول کرنا چاہیے ‘ اس صورت میں ایک ناپ تول کافی نہیں ہے۔
Top