Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 174
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلَعَلَّهُمْ : اور تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
اور اسی طرح ہم (اپنی) آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ رجوع کریں
وکذلک نفصل الایت ولعلہم یرجعون۔ اور ہم آیات کو اسی طور پر صاف صاف بیان کیا کرتے ہیں (تاکہ وہ غور کریں) اور تاکہ وہ باز آجائیں۔ وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُیعنی ہم یونہی آیات کو واضح طور پر کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ بندے ان پر غور کریں اور بھولے ہوئے عہد کو یاد رکھیں اور کفر سے توحید کی طرف لوٹ آئیں اس مطلب پر لعلہم یرجعونکا عطف ایک محذوف جملہ پر ہوگا یعنی لعلہم یتدبرون ویتذکرون مانسوا ویرجعون۔ جمہور مفسرین اور علمائے سلف نے احادیث کی روشنی میں آیات مذکورہ کا مطلب حسب تفسیر مندرجہ بالا بیان کیا ہے۔ بیضاوی اور بیضاوی کے مقلدوں نے (جمہور سلف کے خلاف) آیات مذکورہ کی تفسیر اس طرح کی ہے۔ واذا اخذ ربک اور جب آپ کے رب نے لیا یعنی آدم اور نسل آدم کی پشت سے مختلف زمانوں میں انسانوں کو ایک کے بعد ایک کو پیدا کیا۔ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰی انفسہم یعنی دلائل ربوبیت قائم کردیں اور لوگوں کے دماغوں کے اندر وہ قوت فہم پیدا کردی جو اقرار توحید کی دعوت دے رہی ہے گویا وہ اس درجہ پر پہنچ گئے (اور تقاضائے فطرت یہ ہوگیا کہ جب ان سے الست بربکم کہا گیا تو انہوں نے بلٰیکہہ دیا (یعنی یہ سوال و جواب اگرچہ واقع میں نہیں ہوئے لیکن جب اللہ نے ان کو علم عطا کردیا اور دلائل ربوبیت کی فطرت تخلیق کردی تو یہی تخلیق اور عطاء قوت بطور تشبیہ گواہ بنانا اور اقرار کرنا ہوگیا۔ بیضاوی نے اس مطلب کی تائید میں لکھا ہے کہ آیت کے الفاظ خود اسی مطلب پر دلالت کر رہے ہیں اناکنا عن ہذا غفلین یعنی کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے غافل تھے تو نے کسی دلیل سے ہم کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ شرک تو ہمارے اسلاف نے کیا تھا وہی شرک کے مؤسس تھے ہم تو ان کے مقلد و پیرو تھے ہم نے ان کی اقتدا کی۔ قیامت کے دن یہ عذر اس وجہ سے نہیں پیش کیا جاسکتا کہ جب دلائل موجود ہیں اور دلائلِ توحید کا علم حاصل کرنے کی قدرت ہے تو پھر کو را نہ اتباع سلاف ناقابل معذرت ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اس کلام کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک تو توریت کے اندر یہودیوں سے میثاق خاص طور پر لیا گیا تھا دوسرے فطری عمومی میثاق توحید بھی موجود ہے اس طرح نقلی دلیل کی بھی تکمیل ہوگئی اور عقلی شہادت بھی کافی ہوگئی لہٰذا خود نظر اور استدلال سے کام لینے کی ضرورت ہے اور تقلید اسلاف کے بندھن کاٹ دینے لازم ہیں (گویا ان آیات کے مخاطب خاص طور پر یہودی ہیں جن کو فطرت سلیمہ قوت عقلیہ اور فہم و دانش کی تمام طاقتیں عطا کی گئی تھیں جیسے دوسرے لوگوں کو عطا کی گئی ہیں پھر توریت میں بھی ان سے میثاق لے لیا گیا تھا) اسی مضمون پر دلالت کر رہی ہے آخری آیت (وکذلک نفصل الایات ولعلہم یرجعون) ۔ میثاق الست کے متعلق جو احادیث آئی ہیں بیضاوی اور ان کے متبعین ان احادیث کی اسی نہج پر تاویل کرتے ہیں۔
Top