Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 174
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلَعَلَّهُمْ : اور تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
دیکھو، اِس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں
[ وَكَذٰلِكَ : اور اس طرح ] [ نُفَصِّلُ : ہم کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ] [ الْاٰيٰتِ : نشانیوں کو ] [ وَلَعَلَّهُمْ : اور شاید وہ لوگ ] [ يَرْجِعُوْنَ : لوٹ آئیں ] نوٹ ۔ 1: مذکورہ آیات میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے عہد الست کہتے ہیں ۔ اس کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ یہ دنیا ہماری امتحان گاہ ہے ۔ مختلف پیرائے میں قرآن مجید میں تین مقامات پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے (11:7 ۔ 18:7 ۔ 67:2) ۔ اصول یہ ہے کہ کسی کا امتحان لینے سے پہلے اسے کچھ سکھاتے پڑھاتے ہیں پھر امتحان لیتے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ انسان کو کچھ سکھا پڑھا کر امتحان گاہ میں بھیجا جاتا ہے یا ویسے ہی بھیج دیا جاتا ہے ۔ اس سوال کا جواب پہلے ہم اپنے مشاہدہ کی مدد سے حاصل کریں گے ، پھر قرآن مجید سے ۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی غذا کہاں ہے، ماں کے سینے سے دودھ چوسنے کے لیے ایک خاص ٹیکنیک کی ضرورت ہے، ورنہ دودھ منہ میں نہیں آئے گا ، بچہ اس ٹیکنیک سے واقف ہوتا ہے ، دودھ گھوٹنے کے لیے ایک خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ حلق کے نیچے غذا کی نالی کے ساتھ ہوا کی نالی بھی ہوتی ہے۔ ذرا سی بےاحتیاطی سے دودھ ہوا کی نالی میں جاسکتا ہے ۔ بچے کو یہ احتیاط بھی آتی ہے ۔ بچے کو نہ صرف رونا آتا ہے بلکہ مختلف ضروریات کے لیے رونے کے فن کو استعمال کرنا بھی جانتا ہے ۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کب رونا اور کب ہنسنا چاہیے ۔ اس انداز میں مشاہدے کو کام میں لاکر ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ انسان بہت کچھ سیکھ کر اور متعدد استعداد و صلاحیت لے کر اپنے کمرہ امتحان میں داخل ہوتا ہے ۔ قرآن مجید ایسی تمام باتوں کا ذکر نہیں کرتا ۔ البتہ انسان جن باتوں کا علم لے کر دنیا میں آتا ہے ، ان میں سے دو علوم بنیادی ہیں کیونکہ اصلا انہیں کا امتحان اسے دینا ہے ۔ ان کا ذکر قرآن نے کیا ہے ۔ اولا صحیح عقیدہ یعنی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا علم جس کا ذکر آیات زیر مطالعہ میں ہے اور ثانیا صحیح عمل یعنی نیکی اور بدی کا شعور ، جس کا ذکر سورة الشمس کی آیت نمبر 8 میں ہے۔ اب آیات زیر مطالعہ کے ضمن میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کریں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے وجود کا اور اس کے رب ہونے کا علم شعوری حالت میں دیا گیا تھا ، جس کی وجاحت واشھدہم علی انفسہم کے الفاظ سے کی گئی ۔ اور صرف علم دینے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ساتھ میں دو وارننگ بھی دی گئی تھیں ۔ اولا یہ کہ ہم یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کا انکار کربیٹھیں کہ ہم تو بیخبر تھے ، ثانیا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اقرار تو کریں لیکن اس کی ربوبیت میں دوسروں کو شریک کربیٹھیں ۔ اس کے ساتھ ہی جتا دیا گیا کہ قیامت کے دن یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ غلطی تو ہمارے باپ دادا نے کی تھی اس لیے ہمیں کچھ نہ کہو ، اس طرح عہد الست کی تعلیمات میں تین باتیں شامل ہیں ۔ (1) اللہ تعالیٰ کا وجود ۔ (2) اس کا تنہا حاجت روا ، مشکل کشا ہونا ، دوسرے الفاظ میں رب ہونا یعنی توحید ۔ (3) ہر شخص کا خود ذمہ دار اور جواب دہ ہونا ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عہد الست ہم میں سے کسی کو بھی یاد نہیں ہے۔ تو پھر ہم امتحان کیسے دیں اور پاس کیسے ہوں ۔ قرآن تسلیم کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یاد دہانی کا پورا نظام قائم کرکے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسان کو ضروری استعداد دے کر بھیجا ہے ۔ جو بھی اپنی استعداد کو استعمال کرے گا اسے پورا واقعہ یاد نہیں آئے گا لیکن اس کی تعلیمات یاد آجائیں گی ۔ اور زندگی کے امتحان کا پہلا پرچہ یہی ہے کہ انسان اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرے ۔ پھر یاد کی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں اسے اگلے پرچے حل کرنے ہیں ۔ یادہانی کا نظام کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک لفظ کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے ۔ وہ لفظ آیت ہے، جس کے معنی ہیں نشانی ۔ یہ نوٹ کرلیں کسی بات کا علم نہیں دیتی ۔ اس کا کام یہ ہے کہ بھولا ہوا علم یاد دلادے۔ مثلا میرا کوئی دوست تحفہ میں مجھے ایک قلم دیتا ہے۔ وقت گزرنیکے ساتھ میں اپنے دوست کو بھول گیا ۔ ایک دن پرانی چیزوں میں سے وہ قلم نکل آیا ۔ اس پر نظر پڑتے ہی وہ دوست مجھے بلا تردد یاد آگیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوست کی یاد میرے شعور سے تو محو ہوگئی تھی لیکن تحت الشعور میں موجود تھی ۔ نشانی اسے وہاں سے ابھار کر شعور کی سطح پر لے آئی ۔ یاد دہانی کے نظام کے سلسلہ میں اب یہ سمجھ لیں کہ کائنات ہی یاد دہانی کا نظام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آسمانوں کو ، سورج اور چاند کو، رات اور دن کے الٹ پھیر کو ، زمین اور اس کی تمام چیزوں کو ، خود انسان کے وجود کو ، غرض یہ کہ اس کائنات کی ہر چیز کو نشانیاں کہا گیا ہے اور ان پر غور وفکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن میں اس ضمن میں تقریبا سات سو آیات ہیں ، جبکہ انسان کی پیدائش اور اس کے وجود پر غور کرنے کے متعلق آیات اس کے علاوہ ہیں ، ان نشانیوں پر غور کرنے سے بھولا ہوا سبق کیسے یاد آئے گا ، اس بات کو ایک مثال کی مدد سے سمجھ لیں ۔ اگر آپ کسی باغ میں جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں کی گھاس اور پودوں کے اگنے اور ان کی تراش وخراش میں ایک ترتیب ، نظم اور حسن ہے، تو آپ تسلیم کریں گے کہ اس باغ کا ایک مالی ہے، چاہے مالی وہاں موجود نہ ہو اور کہیں نظر نہ آرہا ہو۔ اس کے برعکس اگر وہاں پر گھاس اور پودے بےترتیبی کے ساتھ جھاڑ جھنکار کی طرح اگے ہیں تو آپ یہی کہیں گے کہ یہ خود رو ہیں اور ان کا کوئی مالی نہیں ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر اب ذرا اس کائنات پر ایک نظر دالیں ۔ ایک حقیر سے ذرہ ایٹم کے اندر الیکڑون سے لے کر زمین ، چاند ، سورج ، سیارے ، یہ سب کے سب گردش کررہے ہیں ۔ ان سب کی گردش دائیں سے بائیں جانب (Anticlockwise ) ہے ۔ ہر ایک کی گردش کا ایک مقررہ راستہ یعنی مدار ہے۔ کوئی بھی چیز اپنے مدار سے ذرا سا بھی ادھر ادھر نہیں کھسکتی ہر ایک کے مدار کی شکل بیضوی ہے۔ اب ذراسوچیں ، خود بخود وجود میں آنے والی اتنی مختلف اشیاء میں کیا یہ ترتیب ، یہ نظم ، یہ ضابطہ ممکن ہے ؟ آپ کا دل گواہی دے گا کہ ایسا ممکن نہیں ۔ بلکہ ان سب کا کوئی ڈیزائنر یعنی مصور ہے۔ جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ اور وہی ان کو کنٹرول کیے ہوئے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی یاد کو تازہ کرنے کا یہ وہ طریقہ ہے جس کی جانب قرآن انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین گول ہے ۔ لیکن ہمارے لیے یہ فرش کی مانند ہے ، ورنہ ہم ادھر ادھر لڑھکتے پھرتے ۔ زمین کی ایک نہیں بلکہ دو گردشیں ہیں لیکن ہمیں یہ ساکت لگتی ہیں ۔ اگر اس کی حرکت کو ہم محسوس کرتے تو ہمیں چکر آتے ۔ یہ اس کائنات کے مصور اور خالق کے توازن وتناسب (Sense of Proportion) کا کمال ہے ۔ (87:2، 3) اس پہلو سے کائنات کی کسی بھی چیز پر جو بھی غور کرے گا اس کا دل گواہی دے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی اکمل (Perfect) ہے یعنی اس کی ذات وصفات ہر قسم کی کمی ، کمزوری یا خامی سے پاک ہے۔ سبحان اللہ کا یہی مطلب ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سائنسی معلومات تو انسان نے آج حاصل کی ہیں ۔ اس سے پہلے کے انسان کے لیے کائنات میں کیا نشانیاں تھیں ۔ تو ایسی نشانیوں کے ذکر سے تو قرآن مجید بھرا پڑا ہے ، جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر دور کا انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق کائنات پر غور کرکے اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرسکتا تھا ۔ مثلا زمین میں بیج توہم ڈالتے ہیں ۔ لیکن اسے درخت بنانے والا اور اس میں پھل لانے والا کون ہے ؟ ( 67:60) ۔ سرسبز درخت سے آگ کون نکالتا ہے ؟ (36:80) ۔ انگور اور کھجور کے باغ ہیں ، کھیتاں ہیں، ان سب کو پانی تو ایک ہی دیا جاتا ہے ۔ لیکن پھل مختلف آتے ہیں اور ذائقہ میں ایک سے بڑھ کر ایک ۔ یہ کس کا کمال ہے ؟ (13:4) ۔ دودھ دینے والے جانور چارہ کھاتے ہیں ۔ اسی سے خون بھی بنتا ہے اور گوبر بھی ۔ پھر اسی خون اور گوبر کے درمیان سے خالص دودھ نکلتا ہے ۔ یہ کس کا نظام ہے ؟ (16:6) ۔ علی ھذا القیاس ۔ کوئی ہٹ دھرم ہوجائے تو اور بات ہے ورنہ یہ حقیقت بہت واضح ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز میں ایسی نشانیاں موجود ہیں کہ انسان ان میں سے کسی ایک پر بھی غور کرلے تو وہ عہد الست کی تعلیمات کو اس کے تحت الشعور سے ابھار کر اس کے شعور کی سطح پر لے آئے گی اور انسان کو اپنا بھولا ہوا سبق یاد آجائے گا ۔
Top