Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 174
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلَعَلَّهُمْ : اور تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
اور ہم اسی طرح اپنی آیات کی تفصیل کرتے ہیں تاکہ ان پر حجت قائم ہو اور تاکہ وہ رجوع کریں
وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ۔ اس آیت میں قرینہ دلیل ہے کہ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ اگر اس کو کھول دیا جائے تو ہمارے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے گا کہ اس طرح ہم آپنی آیات کی تفصیل اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہم لوگوں پر اپنی حجت اس طرح قائم کردیں کہ ان کے لیے کوئی ادنی عذر بھی باقی نہ رہ رہ جائے اور تاکہ اس وضاحت کے بعد ان میں سے جو شرک سے تائب ہو کر اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیں وہ رجوع کرلیں۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان سے مذکورہ عہد لینے کے بعد یہ اللہ تعالیٰ کا مزید فضل و احسان ہے کہ اس نے اس عہد و میثاق کی پوری تفصیل بھی سنا دی تاکہ جو اپنی غلطی سے توبہ کرنا چاہیں وہ توبہ کرلیں اور جو اپنی ضد پر اڑے رہنا چاہیں وہ اس کے نتائج کا ذمہ دار اپنے ہی کو سمجھیں، کسی اور کی گردن پر اس کا بار الزام ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔ عہد فطرت سے متعلق بعض سوال اور ان کے جواب : اس عہد کا ذکر قرآن نے ایک امر واقعہ کی حیثیت سے کیا ہے اور اس کی اہمیت یہ بتائی ہے کہ جہاں تک خدا کی ربوبیت کا تعلق ہے ہر شخص مجرد اسی عہد کی بنا پر عنداللہ مسئول ہوگا۔ اس کی اس اہمیت کی بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالم غیب کے کسی ایسے ماجرے کی یاد داشت انسان کے ذہن میں محفوط ہے جس کا یہاں ذکر ہوا ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کس طرح باور کیا جائے کہ فی الواقع انسان نے اس طرح کا کوئی اقرار کیا ہے اور اس کی بنیاد پر وہ توحید کے معاملے میں عنداللہ مسئول ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک اس اقرار کا تعلق ہے وہ تو ہر انسان کی فطرت کے اندر موجود ہے رہا اس کا موقع و محل اور اس کی تاریخ تو وہ گر یاد نہیں رہی تو اس سے نفس اقرار کی صحت و صداقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، زیادہ سے زیادہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اقرار تو مجھے یاد ہے البتہ اس کا موقع و محل یاد نہیں ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس کا موقع و محل بتا دیا کہ یہ اقرار انسان کے وجود میں آنے سے پہلے عالم غیب میں خدا نے اس سے لیا ہے اور یہ بات خدا ہی بتا سکتا تھا اس لیے کہ غیب کا علم صرف اسی کے پاس ہے۔ انسان پر حضرت قائم ہونے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ اس اقرار کی یاد داشت اس کے اندر موجود ہے لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے اندر ابتدا ہی سے یہ اقرار موجود ہے تو اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسان وجود میں آنے کے بعد دین کا آغاز خالص خدا پرستی اور توحید سے کرتا لین ہمارے نئے فلسفی تو یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان نے دین کا آغاز شرک سے کیا ہے۔ دنیا میں گوناگون حوادث کے ظہور نے اس کے اندر مختف ان دیکھی طاقتوں کا خوف پیدا کیا۔ اس خون نے اس کے اندر ان دیکھی طاقتوں کی پرستش کا خیال پیدا کیا، چناچہ اس نے اسن کی پرستش شروع کی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے علم میں جتنی ترقی ہوتی گئی ان وہمی معبودوں سے چھوٹ کر وہ اقرار توحید کی منزل تک پہنچا۔ ہم نے نئے فلسفیوں کے اس واہمہ کی تدید سورة فاتحہ کی تفسیر میں بھی ہے اور اس سے زیادہ تفصیل اپنی کتاب حقیقت شرک میں کی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تقریر بالکل غیر منطقی ہے۔ ہم نے مذکورہ کتابوں میں واضح کیا ہے کہ خوف نام ہے کسی ایسی چیز کے زائل ہونے یا چھن جانے کے اندیشہ کا جو انسان کو حاصل بھی ہو اور جوع عزیز و محبوب بھی ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ نعمت، منعم، اور اس کی شکر گزاری کا شعور اور جذبہ، خوف کے جذبہ اور اس کے عوام پر مقدم ہے اس وجہ سے انسان نے خوف سے دین کا آغاز نہیں کیا بلکہ اپنے منعم پروردگار کی شکر گزاری اور اس کی عبادت سے دین کا آغاز کیا لیکن پھر مختلف اسباب کے تحت، جن کی تفصیل ہم نے اپنی کتاب حقیقت شرک میں ہے، وہ اس جادہ مستقیم سے ہٹ کر مختلف پگڈنڈیوں پر نکل نکل گیا ہے۔ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی فطرت بالکل ایک لوح سادہ ہوتی ہے۔ اس پر جنتے نقوش بھی ابھرتے ہیں بعد میں ادراک و شعور پیدا ہونے کے بعد محض ماحوک کے اثر سے ابھرتے ہیں لیکن یہ خیال محض مغالطہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماحول اپنے اندر نئے آنے والوں پر جو اثرات ڈالتا ہے وہ خود اس نے کہاں سے لیے ہیں۔ ماحول کے پاس رطب و یابس روایات کا جو اندوختہ بھی ہے وہ سب اس کی فطرت ہی کے بناؤ یا بگاڑ کا کرشمہ ہے جو باتیں اس کی فطرت کے اصل منبع سے ابھری ہیں وہ خیر، عدل اور معروف ہیں اور جن پر ان کی خواہشات کی بےاعتدالیاں غالب آگئی ہیں وہ شر اور ظلم بن گئی ہیں۔ خدا کے معاملے بھی یہی بےاعتدالی اس سے صادر ہوئی ہے۔ اس کی اصل فطرت کے اندر صرف ایک خدائے وحدہ لا شریک ہی کا اقرار مضمر ہے۔ اتنے پر دنیا کے مشرک اور موحد سب متفق ہیں اس وجہ سے یہ چیز کسی دلیل کے قیام کی محتاج نہیں ہے البتہ شرک کے مدعیوں پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اس ایک پر جو دوسرے معبودوں کا اضافہ کرتے ہیں ان کی وہ دلیل پیش کریں۔ چناچہ قرآن نے ان سے جگہ جگہ یہی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے خود ساختہ شریکوں کے حق میں کوئی دلیل لائیں۔ قرآن کا سارا فلسفہ درحقیقت انسان کی فطرت پر مبنی ہے۔ اس کا دعوی یہ ہے کہ وہ جن عقائد و اعمال اور جن اچھائیوں اور نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے اور جن برائیوں سے روکتا ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے خارج سے اس پر لادی نہیں جا رہی ہے بلکہ اس کو انہی باتوں کی یاد دہانی کی جارہی ہے جو اس کی اپنی فطرت کے اندر ودیعت ہیں لیکن اس نے اپنی لذات عاجلہ کے پیچھے پڑجانے کے سبب سے ان کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ قرآن نے اس وجہ سے اپنے آپ کو ذکر اور ذکری کہا ہے جن کے معنی یاد دہانی کے ہیں اور اپنی تعلیم و دعوت کو تذکیر کے لفظ سے تعبیر کیا جس کے معنی فراموش کردہ یا نظر انداز کردہ حقائق کے یاد دلانے کے ہی۔ یہ ایک بالکل واضح حقیقت ہے لیکن اس زمانے کے نئے تعلیم یافتہ لوگوں پر مارکس اور فائڈ کا جادو چلا ہوا ہے۔ ان ظالموں کی خاکبازیوں نے لوگوں کو اس طرح اندھا بنا دیا ہے کہ اب لوگوں کو انسان کے اندر بطن اور فرج کے سوا اور کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ ان کے نزدیک انسان کا سارا فکر و فلسفہ بس انہی دو محوروں پر گھوم رہا ہے۔ اس رویایتی چوہے کی طرح جسے ہلدی کی ایک گرہ مل گئی تو اس نے پنسای کی ایک دکان کھول لی مارکس اور فرائڈ نے بطن و فرج پر سارے فکر و فلسفہ اور تمام مذہب و اخلاق کو ڈھال دیا اور اس طرح ان لوگوں کو جو پہلے ہی بطن و فرج کے غلام تھے دو ایسے مرشد بھی مل گئے جن کا وہ فخر کے ساتھ حوالہ دیتے ہیں کہ وہ بےپیرے نہیں بلکہ انہیں بھی شرف نسبت و ارادت حاصل ہے۔
Top