Mazhar-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 57
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ
وَتَاللّٰهِ : اور اللہ کی قسم لَاَكِيْدَنَّ : البتہ میں ضرور چال چلوں گا اَصْنَامَكُمْ : تمہارے بت (جمع) بَعْدَ : بعد اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم جاؤگے مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
اور مجھے (ف 1) اللہ کی قسم ہے کہ میں تمہارے بتوں کا برا حال کروں گا جب تم (ان کے پاس سے ) پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے
(ف 1) تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں ان آیتوں کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت سے ان کے باپ آذر اور قوم کے لوگوں نے بت پرستی نہیں چھوڑی تو حضرت ابراہیم کے دل میں یہ بات سمائی کہ کبھی موقع پاکر ان بتوں کا پورا علاج کرنا چاہے حضرت ابراہیم کی قوم کے لوگوں میں ہر سال ایک میلہ بستی کے باہر ہوا کرتا تھا جس میں بستی کے سب لوگ جایا کرتے تھے اس سال جب میلہ کا وقت آیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیماری کا عذر ظاہر کرکے اس میلہ میں نہیں گئے اور دبی ہوئی آواز میں سے بتوں کو توڑنے کی قسم کھائی، جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے قوم کے لوگوں کے بستی سے باہر چلے جانے کے بعد بت خانہ میں جاکر چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالا اور ایک بت کو جو سب سے بڑا تھا رہنے دیا تاکہ وہ آکر اپنے بت خانہ کی کیفیت دیکھیں یا یہ معنی ہیں کہ بڑے بت کی طرف رجوع کریں قوم کے لوگ جب بت خانہ میں گھسے تو بڑے طیش میں آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ گستاخی کس نے کی ہے یہ تو بڑے بےہودہ اور ظالم کا کام ہے پھر آپس میں کہنے لگے یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کام ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں جو ان کی برائی کرتا ہے پھر یہ مشورہ ٹھہرا کہ ان کو ایک مجمع عام میں بلایا جائے تاکہ لوگ ان کے فعل کی گواہی دیں ، غرض حضرت ابراہیم ان کی مجلس میں آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ حضرت ابراہیم ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کیا تم نے کی ہے حضرت ابراہیم نے کہایہ تمہارے معبود ہیں تو ان میں ہر قسم کی قدرت ہیی ان میں باہم لڑائی ہوئی ہوگی بڑے نے چھوٹوں کو مارڈالا ہوگا پس تم انہیں سے پوچھ لو اگر ان میں بولنے کی طاقت ہے تو بتلادیں گے صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اچھے لوگوں کے دل میں اللہ کا خوف زیادہ ہوجاتا ہے اس لیے ظاہری صورت کے جھوٹ پر بھی حضرت ابراہیم آپ اپنے تئیں ہمیشہ خطا وار سمجھ کر استغفار میں مشغول رہتے تھے افسوس ہے ان غافلوں کے حال پر جو حقیقی جھوٹ میں ہر دم مبتلا رہتے ہیں اور بھول کر بھی استغفار نہیں کرسکتے۔
Top