Mualim-ul-Irfan - Hud : 58
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا١ۚ وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
وَلَمَّا : جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم نَجَّيْنَا : ہم نے بچا لیا هُوْدًا : ہود وَّالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَنَجَّيْنٰهُمْ : اور ہم نے بچا لیا مِّنْ : سے عَذَابٍ : عذاب غَلِيْظٍ : سخت
اور جس وقت آیا ہمارا حکم تو ہم نے نجات دی ہود (علیہ السلام) کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ، اپنی خاص رحمت کے ساتھ اور ہم نے بچایا ان لوگوں کو گاڑھے عذاب سے
ربط آیات اس سے پہلے حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم کے سامنے تقریر ، ان کی نصیحت وعظ ، تبلیغ اور اس ضمن میں کی جانے والی محنت اور کوشش کا ذکر ہوچکا ہے۔ اللہ نے آپ کی قوم کی نافرمانی اور سرکشی کا ذکر بھی فرمایا۔ قوم ہود کا ذکر قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں آیا ہے۔ سورة احقاف میں آپ کا بیان ہے اور سورة اعراف میں زیادہ تفصیل ہے۔ وہاں پر کفر و شرک کی مختلف باتوں کا تذکرہ ہے ان لوگوں نے مختلف مقاصد کے حصول کے لئے مختلف معبود بنا رکھے تھے۔ ہود علیہالسلام کی تبلیغ کے جواب میں قوم نے آپ کو بیوقوف کہا ، یہاں بھی گزر چکا ہے کہ وہ کہتے تھے ، اے ہود ! تمہارا دماغ خراب ہو یا ہے اور تم پر ہمارے معبودوں کی مار پڑگئی ہے تم ہمیں خواہ مخواہ ڈرا رہے ہو کہ اگر ان معبودوں کی عبادت نہ چھوڑی تو ہلاک ہوجائیں گے ہم تمہاری باتوں سے خوف نہیں کھاتے ” فآتنا بما تعدنا “ تم ہمیں جس عذاب سے ڈرا رہو ہو۔ اسے لے آئو۔ ہم تمہاری کسی بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی ، جیسا بالعموم اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے۔ آپ نے کل 464 سال عمر پائی اور اس سارے عرصہ میں خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے اور تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ آپ فرماتے تھے کہ تم نے جو کچھ میرے ساتھ کرنا ہے ، کر گزرو ، مجھے کسی چیز کا خوف نہیں ، میں تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتا ہوں جو میرا رب اور تمہارا سب کا پروردگار ہے ہر جاندار کی پیشانی اس کے ہاتھ میں ہے ، وہ جب چاہے کسی قوم کو ہلاک کر کے کسی دوسری قوم کو کھڑا کر دے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قوم عاد کی مسلسل نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر تنگی ڈال دی قحط پڑگیا اور ان کی عورتیں بھی بانجھ ہوگئیں۔ قوم عاد کے دو خاندان ترمذی شریف کی روایت کے مطابق امام بیضاوی اور بعض دیگر مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ ہود (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے لوگوں کی تعداد صرف چار ہزار تھی جب کہ باقی ساری قوم منکر ہی تھی اس دور میں مکہ کے اطراف میں بھی قوم عاد ہی آباد تھی ، البتہ دادی دہنا اور مکہ کے قرب و جوار میں رہنے والے اسی نسل کے ہی دو مختلف خاندان تھے جوار مکہ والے خاندان کا سردار معاویہ ابن بکر تھا جب کہ یمن والے خاندان کا املیک ابن اعوذ تھا۔ دونوں خاندانوں کی آپس میں رشتہ داریاں اور میل ملاقات بھی تھی مفسرین فرماتے ہیں کہ اس دور میں خانہ کعبہ کی عمارت تو سیلاب کی نظر ہوچکی تھی ، البتہ اس مقام پر ایک سرخ ٹیلہ تھا ، جسے متبرک سمجھا جاتا تھا اور لوگ وہاں جا کر دعائیں کرتے تھے۔ قوم عاد کا وفد یمن کے علاقے میں جب عرصے تک بارش نہ ہوئی تو پانی کی قلت پیدا ہوگئی اور قحط کے آثار پیدا ہونے لگے ، ان حالات میں قوم عاد نے فیصلہ کیا کہ اپنا ایک وفد مکہ بھیجا جائے جو وہاں جا کر بارش کے لئے دعا کرے تو شاید اللہ تعالیٰ قحط کو دور کر دے اور خوشحالی لوٹ آئے چناچہ ستر آدمیوں کا ایک وفد دو سرداروں کیل اور مرثد کی قیادت میں مکہ روانہ ہوا۔ وہ لوگ مکہ کے قریب وہاں کے سردار معاویہ ابن بکر کے ہاں جا کر اترے۔ میزبان نے ان کی بڑی آئو بھگت کی اور وہاں کے رواج کے مطابق ان کے خوردو نوش اور عیش آئو بھگت کی اور وہاں کے رواج کے مطابق ان کے خوردو نوش اور عیش آرام کے لئے خوب انتظام کیا حتیٰ کہ ان کی تفریح طبع کے لئے گانے والی لونڈیوں کا بندوبست کیا وہ لوگ مہینہ بھر دعوتیں اڑاتے رہے اور جس مقصد کے لئے آئے وہ بھول ہی گئے۔ میزبان خود بھی ان کے قیام کی طوالت سے تنگ آ چکا تھا مگر انہیں کہہ نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ عرب کے اصول میزبانی کے خلاف تھا۔ بالآخر مہمان سردار مرثد کو خیال آیا کہ ہم تو خوشحالی کی دعا کرنے آئے ہیں مگر یہاں عیش و آرام میں پڑ کر اسے بھی بھول گئے اس نے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ اب انہیں …… یہاں سے رخصت ہو کر اصل مقصد کی طرف آنا چاہئے اس نے یہ بھی کہا کہ میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ جب تک تم اللہ کے رسول ہود (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائو گے ، یہاں پر دعائیں کرنا بھی تمہیں کچھ مفید نہیں ہوگا۔ دوسرے ساتھیوں نے سمجھا کہ مرثد ہود (علیہ السلام) پر ایمان لا چکا ہے ، لہٰذا وہ اس سے ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ اسے ہم دعا کے مقام پر اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ ادھر جب میزبان ان کے قیام سے تنگ آ گیا تو اس نے ایک ترکیب سوچی اور گانے والی لونڈی کو کہا کہ جب گانے کی محفل قائم ہو تو اس میں تم یہ شعر گانا۔ الا یاقیل ویحک قم فھینم لعل اللہ یصبحنا غماماً ۔ اے قیل اٹھو ! اور کچھ مناجات اور التجا کرو ، شاید اللہ تعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کر دے۔ فیشقی ارض عادٍ ان عاداً قد امسوالا یبینون الکلاماً ۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ ارض عاد کو سیراب کر دے کیونکہ عاد کے لوگ اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ بات بھی نہیں کرسکتے۔ جب لونڈی کی زبان سے مہمانوں نے یہ شعر سنے تو پھر انہیں ہوش آیا کہ ہم نے تو یہاں بہت دیر کردی ہے۔ ہمیں فوراً اپنے مقصد کی طرف جانا چاہئے۔ چناچہ بیت اللہ شریف کے مقام پر واقع ٹیلے پر جا کر انہوں نے دعا کی کہ اے پروردگار۔ ہم بڑی پریشانی میں مبتلا ہیں جس طرح تو پہلے قوم عاد کو سیراب کرتا تھا ، اب بھی ان کے لئے پانی نازل فرما۔ قوم عاد پر عذاب مفسرین بیان کرتے ہیں کہ اس دعا کے بعد تین قسم کے بادل اٹھے یعنی سید ، سرخ اور سیاہ غیب سے کیل سردار کے نام آواز آئی کہ ان بادلوں میں سے جونسا چاہو پسند کرلو۔ چونکہ عموماً کالی گھٹائیں زیادہ سے زیادہ بارش کا سبب بنتی ہیں ، اس لئے قیل نے سیاہ بادلوں کو پسند کیا۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ آواز آئی اچھا پھر انہی کو اختیار کرلو لاتبقی من العاد احداً یہ قوم عاد میں سے کسی کو بھی باقی نہیں چھوڑیں گے۔ جب سیاہ بادل وادیوں پر نمودار ہوئے تو وہ لوگ بڑے خوش ہوئے کہ اب خوب بارش ہوگی اور قحط دور ہوجائے گا۔ سورة احقاف میں ہے ” فلما راوہ عارضاً مستقبل اودیتھم قالوا ھذا عارض ممطرنا “ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ بادل ان کے میدانوں کی طرف آ رہے ہیں تو کہنے …… لگے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔ مگر اللہ نے فرمایا یہ بارش برسانے والے بادل نہیں ” بل ھوما استعجلتم بہ بلکہ یہ تو وہ چیز ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے ریح فیھا عذاب الیم ۔ “ اس میں آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب بھرا ہوا ہے۔ تدتر کل شیء بامر ربھا۔ “ یہ ایسی چیز ہے جو ہر چیز کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیگی۔ چناچہ جب بادل آئے تو ان میں سے ایسی زہریلی ہوا خارج ہوئی جس نے پوری قوم کو تباہ کردیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ یہ ہوا مغرب کی جانب سے آئی تھی۔ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا فرمان بھی ہے کہ قوم عاد کو مغرب کی طرف سے چلنے والی گرم ہوا سے ہلاک کیا گیا۔ جب کہ اللہ نے میری مدد مشرق سے چلنے والی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ کی۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بھی مشرق کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چلی تھی جس کی وجہ سے مشرکین کے خیمے اکھڑ گئے اور انہوں نے محاصرہ اٹھا کر واپس جانے کا فیصلہ کرلیا۔ بہرحال قوم عاد پر ایسی خطرناک ہوا چلی کہ اس نے ہر چیز کو تہ وبالا کردیا۔ درخت گرا دیئے ، عمارتیں منہدم ہوگئیں انسانوں کو اچھال اچھال کر اور آپس میں ٹکرا ٹکرا کر ہلاک کیا گیا۔ گرم اور تیز ہوا لوگوں کے ناک میں داخل ہو کر دوسری طرفنکل جاتی تھی اور اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی تھی۔ سورة الحاقہ میں ہے ” سخرھا علیھم سبع لیال و ثمنیۃ ایام حسوماً “ یہ تند و تیز ہوا سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلسل چلتی رہی اور پوری قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ، بڑے بڑے جسم آدمی ایسے پڑے تھے ، جیسے کھجوروں کے تنے ہوں۔ اللہ نے فرمایا ” فھل تری لھم من باقیہ کیا ان میں سے ایک بھی زندہ بچا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر ایسا سخت عذا نازل فرما کر پوری قوم کو ملیا میٹ کردیا۔ اہل ایمان کی نجات اللہ نے فرمایا ولما جآء امرنا ۔ جب ہمارا حکم آ گیا نجینا ھودوالذین امنوا معہ برحمۃ منا ہم نے ہود (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی خاص مہربانی سے بچا لیا ، ان کی تعداد چار ہزار تھی کہتے ہیں کہ جس مکان میں اہل ایمان موجود تھے وہاں مسموم ہوا نہیں پہنچتی تھی ، باقی ساری قوم کا خاتمہ ہوگیا۔ اللہ نے فرمایا ونجینھم من عذاب غلیظ ہم نے انہیں گاڑھے عذاب سے نجات دی۔ اگر عذاب غلیظ سے دنیوی عذاب مراد ہے تو پھر یہ وہی گرام ہوا ہے جو کافروں پر متواتر ہفتہ بھر چلتی رہی اور بالآخر سب کو ہلاک کردیا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگلی آیت میں قیامت کا ذکر بھی ہے اور اس لحاظ سے عذاب غلیظ سے آخرت کا عذاب بھی مراد ہو سکتا ہے۔ یہاں نجینا کا لفظ دو دفعہ آیا ہے تو اس سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان کو ایک دفعہ ہم نے اس دنیا کے عذاب سے نجات دی اور پھر آگے چل کر قیامت کے دن کے عذاب سے بھی نجات دیں گے۔ آیات اور رسول کا انکار فرمایا وتلک عاد یہ ہے قوم عاد کہ جن کی کارگزاری بیان ہوئی ہے۔ حجد وا بایت ربھم انہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا وعصوا رسلہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ ان کو جھوٹا اور مجنوں کہا اور ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ذکر تو صرف ہود (علیہ السلام) کا ہو رہا ہے مگر رسل جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ ممکن ہے اس وقت ہود (علیہ السلام) کے علاوہ بعض دوسرے رسولبھی موجود ہوں کیونکہ ایک ایک وقت میں کئی کئی انبیاء کا ذکر بھی تو ملتا ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے دور میں ہوتا رہا ہے۔ یونس (علیہ السلام) کے زمانے میں بھی بیک وقت پانچ رسول موجود تھے جن میں سے آپ کو منتخب کر کے نینوی کی بستی ……کی طرف بھیجا گیا۔ بعض فرماتے ہیں کہ جمع کا صیغہ رسولوں کے متعلق دیگر مقامات پر بھی استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک رسول کا انکار تمام رسولوں کے انکار کے مترادف ہے کیونکہ دین اور پیغام تو سب کا ایک ہی رہا ہے۔ سارے پیغمبر یہی کہتے رہے۔ اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ سرکشوں کی پیروی فرمایا قوم عاد نے آیات الٰہی کا انکار کیا ، رسولوں کی نافرمانی کی واتبعوا امر کل جبار عنید اور ہر سرکش اور عنادی آدمی کی پیروی کی۔ ہر اس سردار اور چوہدری کے پیچھے لگے جو حق کے ساتھ عناد رکھتا تھا اور حکم الٰہی کی سرتابی کرتا تھا۔ بالعموم مفاد پرست اور اغراض کے بندے ایسے ہی لوگوں کا اتباع کرتے ہیں اور اچھے لوگوں کی بات نہیں مانتے۔ فرعون نے بھی موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کی بات نہ مانی بلکہ اپنے عنادی سرداروں کا کہا مانا۔ قوم عاد نے بھی یہی کیا کہ اللہ کے رسول ہود (علیہ السلام) ک بات پر غور نہ کیا بلکہ عناد اور تعصب کے پیچھے چلتے رہے۔ لعنت کا طوق اس کا نتیجہ یہ ہوا واتبعوا فی ھذہ الدنیا لعنۃ اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دیگئی۔ ظاہر ہے کہ اس دنیا میں بھی قوم فرعون ، عاد ، ثمود یا قوم لوط کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا ہے تاریخ میں ان کا ذکر نافرمان اور عذاب زدہ قوموں کی حیثیت سے آتا ہے اور انہیں ہمیشہ کے لئے لعنت کا تمغہ لگا دیا گیا ہے۔ یہ تو اس دنیا کا حال ہے ویوم القیمۃ اور قیامت کے دن بھی یہ لوگ لعنت میں گرفتار رہیں گے۔ وہاں ان کو اس دنیا سے بھی زیادہ ذلت اٹھانا پڑے گی۔ آگے عام لوگوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے الا سنو ! ان عاداکفروا ربھم بیشک عادیوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا۔ اپنے وجود بخشنے والے ، نعمتیں عطا کرنے والے اور ہر آسائش مہیا کرنے والے رب کا انکار کیا ، اس کی توحید اور اس کے رسولوں کو تسلیم نہ کیا اور اس کا حکم نہ مانا۔ فرمایا الا سنو ! بعداً العاد قوم ھود۔ قوم ہود کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے بعد کا معنی دوری ہوتا ہے اور یہاں مراد اللہ کی رحمت سے دوری ہے لعنت کا بھی یہی مفہوم ہے کہ لعنتی آدمی اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ بعد کا دوسرا معنی ہلاکت ہوتا ہے۔ اور اس مقام پر یہی موزوں ہے۔ اس لفظ کو ایک شاعرہ نے اپنے شعر میں اس طرح استعمال کیا ہے۔ اخوتی لاتبعدوا بلی واللہ قد بعدوا اے میرے بھائیو ! خدا کرے تم ہلاک نہ ہو۔ مگر میں یہ بات کیسے کروں کیونکہ وہ تو ہلاک ہوچکے ہیں یعنی سارے کے سارے لڑائی میں مارے جا چکے ہیں۔ تو فرمایا سنو ! ہلاکت ہے قوم عاد کے لئے جو ہود (علیہ السلام) کی قوم تھی۔ انہوں نے اپنے مخلص اور خیر خواہ نبی کی بات نہ مانی بلکہ سرکش اور مخالف لوگوں کا اتباع کیا جس کی وجہ سے وہ تباہی و بربادی کا شکار ہوئے۔
Top