Mualim-ul-Irfan - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : وہ غمیگن ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالَ : اور بولا ھٰذَا : یہ يَوْمٌ عَصِيْبٌ : بڑا سختی کا دن
اور جب آئے ہمارے بھیجے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے پاس ، غمگین ہوگئے وہ ان کی وجہ سے اور ان کا دل تنگ ہوا اور کہنے لگے یہ بہت مشکل دن ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دی جانے والی بشارت کا ذکر تھا اور پھر لوط (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کا تذکرہ تھا ، دراصل مضمون کا یہی حصہ ہے جو سابقہ موضوع کے تسلسل میں ہے بعض سابقہ ابنیاء اور ان کی قوموں کا حال پہلے بیان ہوچکا ہے اور پھر ان کی نافرمانی کی بنا پر ان قوموں پر جو عذاب آیا اس کا ذکر بھی ہوچکا ہے۔ اب لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں …… آپ کی قوم پر عذاب کی کیفیت بیان ہو رہی ہے۔ یہاں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر اکٹھا آیا ہے۔ جو فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بشارت لائے تھے۔ وہی قوم لوط پر عذاب برپا کرنے پر بھی مامور تھے۔ لوط (علیہ السلام) رشتے میں ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتجیی تھے۔ دونوں حضرات اکٹھے ہی بابل سے آئے تھے۔ راستے میں اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو نبوت اور رسالت عطا فرمائی اور ان کو بحرمیت کے کنارے آباد سدوم ، آمورہ ، دوامہ اور سوابہ وغیرہ بستیوں کے باشندوں کو تبلیغ کرنے پر مامور فرمایا یہ نہایت سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ پانی کفراوانی ، کھیتیاں اور باغات عام تھے۔ اس علاقے کی کل آبادی کم و بیش چھ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی لوط (علیہ السلام) نے اس قوم میں لمبا عرصہ گزارا ، اسی قوم میں شادی کی اور پھر دو بچیاں بھی پیدا ہوئیں اور یہیں وہ سن بلوغت کو بھی پہنچیں ان لوگوں کی بدبختی تھی کہ آپ کی دو بچیوں کے علاوہ قوم میں سے کوئی فرد بھی آپ پر ایمان نہ لایا ، حتی کہ بیوی بھی محروم ہی رہی۔ قوم نوح قوم عاد اور ثمود کی طرح اس قوم کی عام بیماری بھی کفر اور شرک ہی تھی۔ لواطت کی بیماری مختلف قوموں میں مختلف اخلاقی بیماریاں بھی موجود رہی ہیں مثلاً قوم عاد میں غرور وتکبر تھا۔ قوم ثمود بھی اسی بیماری میں مبتلا تھی جب کہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم ناپ تول میں کمی کی مجرم تھی اسی طرح قوم لوط کی اخلاقی بیماری لواطت تھی۔ یہ لوگ شہوت رانی کے لئے مردوں کی طرف التفات کرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو فرمایا ” بل انتم قوم عدون “ (الشعرآئ) تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔ قضائے شہوت کے لئے جو چیز اللہ نے فطری طور پر مقرر کی ہے ، تم اسے چھوڑ کر غیر فطری چیز کو اختیار کرتے ہو۔ اللہ کا فرمان ہے کہ لواطت کی بیماری سب سے پہلے اسی قوم میں آئی جسے شیطان نے جاری کیا۔ یہ زنا سے بھی بڑا جرم ہے کیونکہ یہ بدفطرتی ہے۔ لوط (علیہ السلام) کے سمجھانے کے باوجود یہ لوگ نہ تو آپ پر ایمان لائے اور نہ ہی اس قبیح حرکت سے باز آئے بلکہ اس پر اصرار کرتے رہے۔ بالآخر دیگر نافرمانوں کی طرح اس قوم پر بھی خدا تعالیٰ کا قہر و غضب نازل ہوا اور ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ فرشتوں کی آمد ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس فرشتوں کی آمد کا تذکرہ گزشتہ درس میں ہوچکا ہے۔ ان کا اگلا ہدف لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کرنا تھا اور آج کی آیات میں اسی بات کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے ولما جآء ت رسلنا لوطاً جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ یہ فرشتے حسین و جمیل نوجوان لڑکوں کی شکل میں تھے۔ بستی میں آ کر انہوں نے لوط (علیہ السلام) کا پتہ پوچھا کہ ان کے مہمان ہیں جب انکے پاس پہنچے سی بھم تو لوط (علیہ السلام) غمگین ہوگئے وضاق بھم ذرعاً اور ان کا دل تنگ ہوگیا۔ ذرع دراصل بازو کو کہتے ہیں مگر اس کا کنایہ دل پر ہوتا ہے۔ لوط (علیہ السلام) بڑے تنگدل ہوئے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آپ کی قوم کے لوگ بڑے خبیث ہیں اور یہ مہمانوں پر دست درازی کریں گے۔ یہاں بھی وہی ابراہیم (علیہ السلام) والی بات کا اعادہ ہو رہا ہے نہ ابراہیم کو علم ہوسکا اور نہ لوط (علیہ السلام) نے جانا کہ یہ تو فرشتے ہیں۔ وہ تو انہیں انسان سمجھتے رہے۔ اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں تو آپ کو غمگین اور تنگدل ہونے کی کیا ضرورت ہے معلوم ہوا کہ اللہ کی نبی غیب دان نہیں ہوتے بہرحال لوط (علیہ السلام) نے قوم کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے فرمایا۔ وقال ھذا یوم عصیب یہ تو بڑا مشکل دن آ گیا ہے۔ ابھی آپ اسی سوچ و بچار میں تھے وجآء ہ قومہ یھرعون الیہ کہ آپکی قوم آپ کی طرف دوڑتی ہوئی آئی۔ یھرعون اگرچہ مجہول کا صیغہ ہے مگر معنی معروف ہی ہے کہ وہ لوگ دوڑتے ہوئے آئے۔ نوجوان لڑکوں کی آمد کی خبر ملی تو فوراً برائی کے ارادے سے آگئے اور ان کی حالت یہ تھی ومن قبل کانوا یعملون السیات کہ اس سے پہلے بھی برائیوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ سورة العنکبوت میں ہے ” وتاتون فی نادیکم المنکر “ اپنی مجلسوں میں برائیاں کرتے تھے۔ گویا برائی کے کھلے عام ارتکاب یا اس کے علی الاعلان اعتراف کرنے میں بھی انہیں کوئی شرم و حیا نہیں تھی۔ اس خلاف وضع فطری برائی کے علاوہ وہ مسافروں کو لوٹ لیتے تھے ، ان پر پتھر پھینکتے تھے ، کبوتری بازی کے شوقین تھے اور طرح طرح کی فضول حرکتیں کرتے تھے۔ لوط (علیہ السلام) کی پیشکش بائیبل کی روایت کے مطابق قوم کے لوگ لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جو مہمان تمہارے پاس آئے ہیں انہیں ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اپنی قبیح خواہش کی تکمیل کرسکیں۔ لوط (علیہ السلام) سخت پریشان ہوئے قال یقوم امولاء بناتی کہنے لگے اے میری قوم ! یہ میری بیٹیاں ہیں۔ ھن اطھرلکم یہ تمہارے لئے پاکیزہ ہیں۔ ان سے نکاح کر کے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کرلو کیونکہ اللہ نے انہیں اسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگر بیٹیوں سے لوط (علیہ السلام) کی اپنی بیٹیاں مراد ہیں تو قوم کو برائی اور بےحیائی سے بچانے کے لئے یہ پیشکش بھی درست تھی ، مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس سے تو لوط (علیہ السلام) کی اپنی بیٹیاں مراد نہیں تھیں کیونکہ آپ کی تو صرف دو ہی بیٹیاں تھیں اور وہ لوگ بہت زیادہ تعداد میں تھے تو اس پیشکش سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اے بدنصیبو ! قوم کی بچیاں میری بچیاں ہیں کیونکہ نبی ساری قوم کا باپ ہوتا ہے۔ اللہ نے ان بچیوں کو قضائے شہوت کے لئے پیدا فرمایا ہے ، لہٰذا تم نکاح کر کے ان سے استفادہ حاصل کرو اور غیر فطری کا م سے باز آ جائو آپ نے فرمایا فاتقوا اللہ پس اللہ سے ڈر جائو اور یہ گندے کا م نہ کرو۔ ولا تخزون فی ضیفی اور مجھے مہمانوں کے بارے میں سوا نہ کرو۔ الیس منکم رجل رشید کیا تم میں کوئی بھی سمجھ بوجھ والا آدمی نہیں ہے ؟ کیا کوئی نیک چلن اور دانا آدمی نہیں ہے ؟ قوم کے ساتھ تکرار قالوا قوم کے لوگ کہنیح لگے لقد علمت مالنا فی بنتک من حق اے لوط (علیہ السلام) ! آپ جانتے ہیں کہ آپ کی بیٹیوں میں ہمارے لئے کوئی رغبت نہیں وانک لتعلم ما نرید اور آپ ہمارے ارادے کو بھی جانتے ہیں۔ ہم تو اپنی خواہش ضرور پوری کریں گے۔ اس پر لوط (علیہ السلام) سخت پریشان ہوگئے اور قال فرمایا لو ان لی بکم قوۃ کاش میرے پاس تمہارے مقابلے کے لئے طاقت ہوتی او اوی الی رکن شدید یا میں مستحکم کنارے کی طرف پناہ پکڑتا چونکہ آپ اس قوم کے فرد نہیں تھے اس لئے نہ کوئی آپ کی برادری تھی اور نہ ہی کوئی اہل ایمان موجود تھے جو آپ کی مدد کرتے ، تو اس لئے آپ نے نہایت اضطراب کی حالت میں اپنی زبان سے فرمایا ، کاش کہ میں تمہارے مقابلے کی طاقت رکھتا۔ محدثین اور مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت لوط (علیہ السلام) کے ذہن میں یہ بات تھی کہ خدانخواستہ اگر ان کے مہمانوں کی تذلیل ہوئی تو وہ مہمان اس قوم کے متعلق کیا نظریہ قائم کریں گے۔ چناچہ یہ بات آپ نے مہمانوں کی دل جوئی کے لئے کی تاکہ وہ سمجھ جائیں کہ ہمارا میزبان ہمارے دفاع کی کوشش کر رہا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے رحم اللہ لوطاً لقد کان یا وی الی رکن شدید اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ، وہ تو بڑے مضبوط رکن کی طرف پناہ پکڑنے والے تھے ، ظاہر ہے کہ آپ تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں تھے ، مگر یہ کلمات اضطراری حالت میں ادا کر رہے تھے۔ تاہم انہیں اللہ تعالیٰ کے ذات پر مکمل بھروسہ تھا۔ فرشتوں کی طرف سے تسلی سورۃ قمر میں موجود ہے کہ جب پوم کے لوگ ہجوم کر کے آگئے وہ اندر داخل ہونا چاہتے تھے اور لوط (علیہ السلام) ان کو روک رہے تھے تو جبرائیل علیہالسلام نے حضرت لوط (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر انہیں پیچھے ہٹایا حالانکہ آپ کو علم ہی نہیں تھا کہ اس کا مہمان جبرائیل (علیہ السلام) ہے۔ پھر جبرائیل نے اپنا ذرا سا پر ہلایا تو اللہ نے فرمایا ” فطمسنا اعینھم کہ میں نے ان کی آنکھیں ہی مٹا دیں اور وہ سب اندھے ہوگئے۔ مگر اس کے باوجود وہ ٹٹول ٹٹول کر مہمانوں کو تلاش کرتے رہے۔ پھر قالوا فرشتوں نے کہا یلوط انا رسل ربک اے لوط ! بیشک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ لن یصلوآ الیک یہ آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکیں گے ، لہٰذا آپ پریشان نہ ہوں۔ ساتھ ہی اللہ کا حکم ہوا فاسربا ھلک بقطع من اللیل آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے حصے میں چلے جائیں ولا یلتفت منکم احد الا مراتک اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے مگر آپ کی بیوی ۔ لوط (علیہ السلام) کی بیوی بائیبل کے بیان کے مطابق لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی آپ کے ساتھ ہی بستی سے نکل کھڑی ہوئی تھی مگر راستے میں اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا اور کہا کہ اللہ نے میری قوم کو اسی وقت مسخ کردیا۔ اتنی بات تھی کہ وہ عورت نمک اور پتھر کا کھمبا بن گئی۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کی بیوی نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو اس پر اللہ کی جانب سے ایک پتھر برسا اور وہ ہلاک ہوگئی۔ وہ کافرہ تھی اور درپردہ کافروں کے ساتھ ساز باز کر رکھی تھی۔ اگرچہ وہ لوط (علیہ السلام) کے نکاح میں تھی مگر ایمان نہیں لائی تھی اور منافقوں کی طرح آپ کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں مومن اور کافرہ کا نکاح درست تھا۔ ہماری امت کے ابتدائی دور میں بھی ایسا نکاح روا تھا مگر بعد میں اسے ممنوع قرار دیدیا گیا۔ اب کسی مومن آدمی کا نکاح روا تھا مگر بعد میں اسے ممنوع قرار دیدیا گیا۔ اب کسی مومن آدمی کا نکاح کسی کافرہ یا مشرکہ سے نہیں ہو سکتا۔ بعض فرماتے ہیں کہ آپ کی بیوی آپ کے ساتھ نکلی ہی نہیں تھی ، تاہم اللہ نے فرمایا انہ مصیبھا ما اصابھم کہ اس عورت پر بھی وہی آفت آنے والی تھی جو باقی قوم کے مقدر میں ہوچکی تھی اور عذاب کی آمد کے متعلق اللہ نے فرمایا ان موعدھم الصبح بیشک ان کے وعدے یعنی عذاب کے نازل ہونے کا وقت صبح مقرر کیا گیا تھا۔ الیس الصبح بقریب کیا صبح قریب نہیں ہے۔ فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ صبح کے وقت ان کی مہلت پوری ہو جائیگی اور پھر ان پر عذاب نازل ہو ائے گا۔ عذاب الٰہی آ گیا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق لوط (علیہ السلام) اپنی بچیوں کو لے کر رات کے آخری حصے میں بستی سے نکل گئے اور پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا جب کافی دور چلے گئے تو صبح کا وقت بھی ہوگیا۔ پھر کیا ہوا۔ فلما جآء امرنا جب ہمارے عذاب کا حکم آ گیا جعلنا عالیھا سافلھا تو ہم نے ان بستویں کے اوپر والے حصے کو نیچے اور نیچے والے کو اوپر کردیا ساری بستیوں کو الٹ کر رکھ دیا کیونکہ وہ لوگ کام ہی الٹے کرتے تھے اس کے علاوہ فرمایا وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی جو مٹی کے پکے ہوئے کھنگروں کی صورت میں تھے۔ اور منضود یہ پتھر نہ در تہ برس رہے تھے مسومۃ وہ پتھر نشان زدہ بھی تھے عند ربک تیرے پروردگار کی طرف سے ہر پتھر پر اللہ نے نشان لگا دیئے تھے یا نام لکھ دیئے تھے کہ یہ فلاں سردار کے سر پر لگے گا ، یہ فلاں کی پشت میں پیوست ہوجائیگا اور یہ فلاں کا خاتمہ کر دیگا۔ چناچہ صبح کے وقت سارا علاقہ درہم برہم ہوگیا۔ یہ علاقہ بحرمیت کے کنارے واقع ہے اور اس کے پانی میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خرابی پیدا کردی کہ ہزاروں سا گزرنے کے باوجود اب تک بھی ٹھیک نہیں ہوا تو اللہ تعالیٰ نے کفر ، شرک اور لواطت کی بیماریوں کی وجہ سے ان کو ایسی مہلک سزا میں مبتلا کیا کہ چھ لاکھ کی آبادی میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچا ، سوائے لوط (علیہ السلام) اور آپ کی بچیوں کے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وھا ھی من الظلمین ببعید یہ عذاب ظالموں سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ اس سے پہلی اقوام عاد ، ثمود ، قوم نوح وغیرہ پر بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت آگئی۔ یہی بات مکہ اور عرب کے مشرکین کو بھی سمجھائی جا رہی ہے اور بعد میں آنے والوں کو بھی بتائی جا رہی ہے کہ یاد رکھو ! اللہ کی سزا ظالموں سے دور نہیں ہے۔ اگر پہلی قومیں اس قسم کے ظلم کی وجہ سے ہلاک ہوئیں تو ایسی سزا تم پر بھی آسکتی ہے۔ عرب لوگ بحرمیت کے کنارے سے تجارتی سفر کے دوران گزرتے تھے ، شام ، فلسطین یا مصر کے لئے یہی راستہ تھا ، تو ان اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھتے تھے۔ اللہ نے ان کو متنبہ کیا کہ دیکھو ! ان لوگوں نے نافرمانی کی تو صفحہ ہستی سے ناپید ہوگئے ، اگر تم بھی شرک ، کفر یا معاصی پر اصرار کرو گے ، تو خد ا کا عذاب دور نہیں ہے وہ کسی وقت بھی نازل ہو سکتا ہے۔
Top