Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا
: اور جب
جَآءَتْ
: آئے
رُسُلُنَا
: ہمارے فرشتے
لُوْطًا
: لوط کے پاس
سِيْٓءَ
: وہ غمیگن ہوا
بِهِمْ
: ان سے
وَضَاقَ
: اور تنگ ہوا
بِهِمْ
: ان سے
ذَرْعًا
: دل میں
وَّقَالَ
: اور بولا
ھٰذَا
: یہ
يَوْمٌ عَصِيْبٌ
: بڑا سختی کا دن
اور جب آئے ہمارے بھیجے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے پاس ، غمگین ہوگئے وہ ان کی وجہ سے اور ان کا دل تنگ ہوا اور کہنے لگے یہ بہت مشکل دن ہے
ربط آیات گزشتہ آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دی جانے والی بشارت کا ذکر تھا اور پھر لوط (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کا تذکرہ تھا ، دراصل مضمون کا یہی حصہ ہے جو سابقہ موضوع کے تسلسل میں ہے بعض سابقہ ابنیاء اور ان کی قوموں کا حال پہلے بیان ہوچکا ہے اور پھر ان کی نافرمانی کی بنا پر ان قوموں پر جو عذاب آیا اس کا ذکر بھی ہوچکا ہے۔ اب لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں …… آپ کی قوم پر عذاب کی کیفیت بیان ہو رہی ہے۔ یہاں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر اکٹھا آیا ہے۔ جو فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بشارت لائے تھے۔ وہی قوم لوط پر عذاب برپا کرنے پر بھی مامور تھے۔ لوط (علیہ السلام) رشتے میں ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتجیی تھے۔ دونوں حضرات اکٹھے ہی بابل سے آئے تھے۔ راستے میں اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو نبوت اور رسالت عطا فرمائی اور ان کو بحرمیت کے کنارے آباد سدوم ، آمورہ ، دوامہ اور سوابہ وغیرہ بستیوں کے باشندوں کو تبلیغ کرنے پر مامور فرمایا یہ نہایت سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ پانی کفراوانی ، کھیتیاں اور باغات عام تھے۔ اس علاقے کی کل آبادی کم و بیش چھ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی لوط (علیہ السلام) نے اس قوم میں لمبا عرصہ گزارا ، اسی قوم میں شادی کی اور پھر دو بچیاں بھی پیدا ہوئیں اور یہیں وہ سن بلوغت کو بھی پہنچیں ان لوگوں کی بدبختی تھی کہ آپ کی دو بچیوں کے علاوہ قوم میں سے کوئی فرد بھی آپ پر ایمان نہ لایا ، حتی کہ بیوی بھی محروم ہی رہی۔ قوم نوح قوم عاد اور ثمود کی طرح اس قوم کی عام بیماری بھی کفر اور شرک ہی تھی۔ لواطت کی بیماری مختلف قوموں میں مختلف اخلاقی بیماریاں بھی موجود رہی ہیں مثلاً قوم عاد میں غرور وتکبر تھا۔ قوم ثمود بھی اسی بیماری میں مبتلا تھی جب کہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم ناپ تول میں کمی کی مجرم تھی اسی طرح قوم لوط کی اخلاقی بیماری لواطت تھی۔ یہ لوگ شہوت رانی کے لئے مردوں کی طرف التفات کرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو فرمایا ” بل انتم قوم عدون “ (الشعرآئ) تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔ قضائے شہوت کے لئے جو چیز اللہ نے فطری طور پر مقرر کی ہے ، تم اسے چھوڑ کر غیر فطری چیز کو اختیار کرتے ہو۔ اللہ کا فرمان ہے کہ لواطت کی بیماری سب سے پہلے اسی قوم میں آئی جسے شیطان نے جاری کیا۔ یہ زنا سے بھی بڑا جرم ہے کیونکہ یہ بدفطرتی ہے۔ لوط (علیہ السلام) کے سمجھانے کے باوجود یہ لوگ نہ تو آپ پر ایمان لائے اور نہ ہی اس قبیح حرکت سے باز آئے بلکہ اس پر اصرار کرتے رہے۔ بالآخر دیگر نافرمانوں کی طرح اس قوم پر بھی خدا تعالیٰ کا قہر و غضب نازل ہوا اور ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ فرشتوں کی آمد ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس فرشتوں کی آمد کا تذکرہ گزشتہ درس میں ہوچکا ہے۔ ان کا اگلا ہدف لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کرنا تھا اور آج کی آیات میں اسی بات کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے ولما جآء ت رسلنا لوطاً جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ یہ فرشتے حسین و جمیل نوجوان لڑکوں کی شکل میں تھے۔ بستی میں آ کر انہوں نے لوط (علیہ السلام) کا پتہ پوچھا کہ ان کے مہمان ہیں جب انکے پاس پہنچے سی بھم تو لوط (علیہ السلام) غمگین ہوگئے وضاق بھم ذرعاً اور ان کا دل تنگ ہوگیا۔ ذرع دراصل بازو کو کہتے ہیں مگر اس کا کنایہ دل پر ہوتا ہے۔ لوط (علیہ السلام) بڑے تنگدل ہوئے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آپ کی قوم کے لوگ بڑے خبیث ہیں اور یہ مہمانوں پر دست درازی کریں گے۔ یہاں بھی وہی ابراہیم (علیہ السلام) والی بات کا اعادہ ہو رہا ہے نہ ابراہیم کو علم ہوسکا اور نہ لوط (علیہ السلام) نے جانا کہ یہ تو فرشتے ہیں۔ وہ تو انہیں انسان سمجھتے رہے۔ اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں تو آپ کو غمگین اور تنگدل ہونے کی کیا ضرورت ہے معلوم ہوا کہ اللہ کی نبی غیب دان نہیں ہوتے بہرحال لوط (علیہ السلام) نے قوم کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے فرمایا۔ وقال ھذا یوم عصیب یہ تو بڑا مشکل دن آ گیا ہے۔ ابھی آپ اسی سوچ و بچار میں تھے وجآء ہ قومہ یھرعون الیہ کہ آپکی قوم آپ کی طرف دوڑتی ہوئی آئی۔ یھرعون اگرچہ مجہول کا صیغہ ہے مگر معنی معروف ہی ہے کہ وہ لوگ دوڑتے ہوئے آئے۔ نوجوان لڑکوں کی آمد کی خبر ملی تو فوراً برائی کے ارادے سے آگئے اور ان کی حالت یہ تھی ومن قبل کانوا یعملون السیات کہ اس سے پہلے بھی برائیوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ سورة العنکبوت میں ہے ” وتاتون فی نادیکم المنکر “ اپنی مجلسوں میں برائیاں کرتے تھے۔ گویا برائی کے کھلے عام ارتکاب یا اس کے علی الاعلان اعتراف کرنے میں بھی انہیں کوئی شرم و حیا نہیں تھی۔ اس خلاف وضع فطری برائی کے علاوہ وہ مسافروں کو لوٹ لیتے تھے ، ان پر پتھر پھینکتے تھے ، کبوتری بازی کے شوقین تھے اور طرح طرح کی فضول حرکتیں کرتے تھے۔ لوط (علیہ السلام) کی پیشکش بائیبل کی روایت کے مطابق قوم کے لوگ لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جو مہمان تمہارے پاس آئے ہیں انہیں ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اپنی قبیح خواہش کی تکمیل کرسکیں۔ لوط (علیہ السلام) سخت پریشان ہوئے قال یقوم امولاء بناتی کہنے لگے اے میری قوم ! یہ میری بیٹیاں ہیں۔ ھن اطھرلکم یہ تمہارے لئے پاکیزہ ہیں۔ ان سے نکاح کر کے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کرلو کیونکہ اللہ نے انہیں اسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگر بیٹیوں سے لوط (علیہ السلام) کی اپنی بیٹیاں مراد ہیں تو قوم کو برائی اور بےحیائی سے بچانے کے لئے یہ پیشکش بھی درست تھی ، مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس سے تو لوط (علیہ السلام) کی اپنی بیٹیاں مراد نہیں تھیں کیونکہ آپ کی تو صرف دو ہی بیٹیاں تھیں اور وہ لوگ بہت زیادہ تعداد میں تھے تو اس پیشکش سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اے بدنصیبو ! قوم کی بچیاں میری بچیاں ہیں کیونکہ نبی ساری قوم کا باپ ہوتا ہے۔ اللہ نے ان بچیوں کو قضائے شہوت کے لئے پیدا فرمایا ہے ، لہٰذا تم نکاح کر کے ان سے استفادہ حاصل کرو اور غیر فطری کا م سے باز آ جائو آپ نے فرمایا فاتقوا اللہ پس اللہ سے ڈر جائو اور یہ گندے کا م نہ کرو۔ ولا تخزون فی ضیفی اور مجھے مہمانوں کے بارے میں سوا نہ کرو۔ الیس منکم رجل رشید کیا تم میں کوئی بھی سمجھ بوجھ والا آدمی نہیں ہے ؟ کیا کوئی نیک چلن اور دانا آدمی نہیں ہے ؟ قوم کے ساتھ تکرار قالوا قوم کے لوگ کہنیح لگے لقد علمت مالنا فی بنتک من حق اے لوط (علیہ السلام) ! آپ جانتے ہیں کہ آپ کی بیٹیوں میں ہمارے لئے کوئی رغبت نہیں وانک لتعلم ما نرید اور آپ ہمارے ارادے کو بھی جانتے ہیں۔ ہم تو اپنی خواہش ضرور پوری کریں گے۔ اس پر لوط (علیہ السلام) سخت پریشان ہوگئے اور قال فرمایا لو ان لی بکم قوۃ کاش میرے پاس تمہارے مقابلے کے لئے طاقت ہوتی او اوی الی رکن شدید یا میں مستحکم کنارے کی طرف پناہ پکڑتا چونکہ آپ اس قوم کے فرد نہیں تھے اس لئے نہ کوئی آپ کی برادری تھی اور نہ ہی کوئی اہل ایمان موجود تھے جو آپ کی مدد کرتے ، تو اس لئے آپ نے نہایت اضطراب کی حالت میں اپنی زبان سے فرمایا ، کاش کہ میں تمہارے مقابلے کی طاقت رکھتا۔ محدثین اور مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت لوط (علیہ السلام) کے ذہن میں یہ بات تھی کہ خدانخواستہ اگر ان کے مہمانوں کی تذلیل ہوئی تو وہ مہمان اس قوم کے متعلق کیا نظریہ قائم کریں گے۔ چناچہ یہ بات آپ نے مہمانوں کی دل جوئی کے لئے کی تاکہ وہ سمجھ جائیں کہ ہمارا میزبان ہمارے دفاع کی کوشش کر رہا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے رحم اللہ لوطاً لقد کان یا وی الی رکن شدید اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ، وہ تو بڑے مضبوط رکن کی طرف پناہ پکڑنے والے تھے ، ظاہر ہے کہ آپ تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں تھے ، مگر یہ کلمات اضطراری حالت میں ادا کر رہے تھے۔ تاہم انہیں اللہ تعالیٰ کے ذات پر مکمل بھروسہ تھا۔ فرشتوں کی طرف سے تسلی سورۃ قمر میں موجود ہے کہ جب پوم کے لوگ ہجوم کر کے آگئے وہ اندر داخل ہونا چاہتے تھے اور لوط (علیہ السلام) ان کو روک رہے تھے تو جبرائیل علیہالسلام نے حضرت لوط (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر انہیں پیچھے ہٹایا حالانکہ آپ کو علم ہی نہیں تھا کہ اس کا مہمان جبرائیل (علیہ السلام) ہے۔ پھر جبرائیل نے اپنا ذرا سا پر ہلایا تو اللہ نے فرمایا ” فطمسنا اعینھم کہ میں نے ان کی آنکھیں ہی مٹا دیں اور وہ سب اندھے ہوگئے۔ مگر اس کے باوجود وہ ٹٹول ٹٹول کر مہمانوں کو تلاش کرتے رہے۔ پھر قالوا فرشتوں نے کہا یلوط انا رسل ربک اے لوط ! بیشک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ لن یصلوآ الیک یہ آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکیں گے ، لہٰذا آپ پریشان نہ ہوں۔ ساتھ ہی اللہ کا حکم ہوا فاسربا ھلک بقطع من اللیل آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے حصے میں چلے جائیں ولا یلتفت منکم احد الا مراتک اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے مگر آپ کی بیوی ۔ لوط (علیہ السلام) کی بیوی بائیبل کے بیان کے مطابق لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی آپ کے ساتھ ہی بستی سے نکل کھڑی ہوئی تھی مگر راستے میں اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا اور کہا کہ اللہ نے میری قوم کو اسی وقت مسخ کردیا۔ اتنی بات تھی کہ وہ عورت نمک اور پتھر کا کھمبا بن گئی۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کی بیوی نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو اس پر اللہ کی جانب سے ایک پتھر برسا اور وہ ہلاک ہوگئی۔ وہ کافرہ تھی اور درپردہ کافروں کے ساتھ ساز باز کر رکھی تھی۔ اگرچہ وہ لوط (علیہ السلام) کے نکاح میں تھی مگر ایمان نہیں لائی تھی اور منافقوں کی طرح آپ کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں مومن اور کافرہ کا نکاح درست تھا۔ ہماری امت کے ابتدائی دور میں بھی ایسا نکاح روا تھا مگر بعد میں اسے ممنوع قرار دیدیا گیا۔ اب کسی مومن آدمی کا نکاح روا تھا مگر بعد میں اسے ممنوع قرار دیدیا گیا۔ اب کسی مومن آدمی کا نکاح کسی کافرہ یا مشرکہ سے نہیں ہو سکتا۔ بعض فرماتے ہیں کہ آپ کی بیوی آپ کے ساتھ نکلی ہی نہیں تھی ، تاہم اللہ نے فرمایا انہ مصیبھا ما اصابھم کہ اس عورت پر بھی وہی آفت آنے والی تھی جو باقی قوم کے مقدر میں ہوچکی تھی اور عذاب کی آمد کے متعلق اللہ نے فرمایا ان موعدھم الصبح بیشک ان کے وعدے یعنی عذاب کے نازل ہونے کا وقت صبح مقرر کیا گیا تھا۔ الیس الصبح بقریب کیا صبح قریب نہیں ہے۔ فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ صبح کے وقت ان کی مہلت پوری ہو جائیگی اور پھر ان پر عذاب نازل ہو ائے گا۔ عذاب الٰہی آ گیا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق لوط (علیہ السلام) اپنی بچیوں کو لے کر رات کے آخری حصے میں بستی سے نکل گئے اور پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا جب کافی دور چلے گئے تو صبح کا وقت بھی ہوگیا۔ پھر کیا ہوا۔ فلما جآء امرنا جب ہمارے عذاب کا حکم آ گیا جعلنا عالیھا سافلھا تو ہم نے ان بستویں کے اوپر والے حصے کو نیچے اور نیچے والے کو اوپر کردیا ساری بستیوں کو الٹ کر رکھ دیا کیونکہ وہ لوگ کام ہی الٹے کرتے تھے اس کے علاوہ فرمایا وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی جو مٹی کے پکے ہوئے کھنگروں کی صورت میں تھے۔ اور منضود یہ پتھر نہ در تہ برس رہے تھے مسومۃ وہ پتھر نشان زدہ بھی تھے عند ربک تیرے پروردگار کی طرف سے ہر پتھر پر اللہ نے نشان لگا دیئے تھے یا نام لکھ دیئے تھے کہ یہ فلاں سردار کے سر پر لگے گا ، یہ فلاں کی پشت میں پیوست ہوجائیگا اور یہ فلاں کا خاتمہ کر دیگا۔ چناچہ صبح کے وقت سارا علاقہ درہم برہم ہوگیا۔ یہ علاقہ بحرمیت کے کنارے واقع ہے اور اس کے پانی میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خرابی پیدا کردی کہ ہزاروں سا گزرنے کے باوجود اب تک بھی ٹھیک نہیں ہوا تو اللہ تعالیٰ نے کفر ، شرک اور لواطت کی بیماریوں کی وجہ سے ان کو ایسی مہلک سزا میں مبتلا کیا کہ چھ لاکھ کی آبادی میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچا ، سوائے لوط (علیہ السلام) اور آپ کی بچیوں کے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وھا ھی من الظلمین ببعید یہ عذاب ظالموں سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ اس سے پہلی اقوام عاد ، ثمود ، قوم نوح وغیرہ پر بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت آگئی۔ یہی بات مکہ اور عرب کے مشرکین کو بھی سمجھائی جا رہی ہے اور بعد میں آنے والوں کو بھی بتائی جا رہی ہے کہ یاد رکھو ! اللہ کی سزا ظالموں سے دور نہیں ہے۔ اگر پہلی قومیں اس قسم کے ظلم کی وجہ سے ہلاک ہوئیں تو ایسی سزا تم پر بھی آسکتی ہے۔ عرب لوگ بحرمیت کے کنارے سے تجارتی سفر کے دوران گزرتے تھے ، شام ، فلسطین یا مصر کے لئے یہی راستہ تھا ، تو ان اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھتے تھے۔ اللہ نے ان کو متنبہ کیا کہ دیکھو ! ان لوگوں نے نافرمانی کی تو صفحہ ہستی سے ناپید ہوگئے ، اگر تم بھی شرک ، کفر یا معاصی پر اصرار کرو گے ، تو خد ا کا عذاب دور نہیں ہے وہ کسی وقت بھی نازل ہو سکتا ہے۔
Top