Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
اور فیصلہ کیا ہے تیرے پروردگار نے اس بات کا کہ نہ عبادت کرو تم سوائے اس کے کسی کی اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر پہنچ جائیں تمہارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے ایک میں سے ایک یا دونوں پس نہ کہو ان کے لیے اف اور نہ ڈانٹو ان کو ، اور کہو ان کے سامنے بات ادب سے ۔
ربط آیات : دیگر مکی سورتوں کی طرح سورة بنی اسرائیل میں بنیادی طور پر چار بنیادی باتیں بیان کی گئی ہیں یعنی قرآن پاکی صداقت وحقانیت ، توحید باری تعالیٰ ، رسالت اور وقوع قیامت ، ان مضامین کے علاوہ سورة ہذا کی ابتدائی آیت میں معراج کا واقعہ بیان ہوا ہے ، چونکہ یہ سورة واقعہ معراج کے بعد نازل ہوئی ، اس لیے اس میں آگے چل کر ہجرت کے متعلق بھی ذکر آتا ہے ، توحید باری تعالیٰ کا تذکرہ گذشتہ آیت میں بھی آچکا ہے ، (آیت) ” لاتجعل مع اللہ الھا اخر “ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ بناؤ اب یہاں سے شروع کرکے پورے دو رکوع میں سورة کا مرکزی مضمون بیان ہو رہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے یہاں پر پندرہ اصول بیان فرمائے ہیں جو اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہیں ، ان اصولوں پر کاربند ہو کہ اسلام کا اجتماعی نظام ٹھیک طور پر قائم ہو سکتا ہے اسلامی نظام خلافت کے لیے یہ اصول منشور کی حیثیت رکھتے ہیں ان اصولوں کی پابندی کے بغیر صحیح اسلامی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا اور نہ لوگوں کو ظلم وتعدی اور برائیوں سے روکا جاسکتا ہے ۔ قرآن کی بعض سورتوں میں اسلام کے معاشرتی نظام کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے ، مثلا سورة نور میں نظام عفت وعصمت سمجھایا گیا ہے اور سورة حجرات میں مسلمانوں کی معاشرتی تنظیم کے موٹے موٹے اصول بیان کیے گئے ہیں وہاں پر اللہ تعالیٰ نے بارہ اصول بیان کیے ہیں جن پر عمل درآمدہ سے آپس کے حالات درست رہ سکتے ہیں پھر سات حوامیم سورتیں ہیں جن میں اللہ نے مسلمانوں کا اعتقادی نظام سمجھایا ہے ان سورتوں کو لباب القرآن بھی کہا جاتا ہے تو اس سورة میں اللہ نے وہ پندرہ اصول بیان فرمائے ہیں جو اسلامی ریاست کا منشور ہیں اور جن پر ہمارے نظام خلافت کی بنیاد ہے ۔ (1) (توحید فی العبادت) ان میں پہلا اصول توحید فی العبادت ہے ، یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف عنوانات کے تحت بیان فرمایا ہے ، یہاں ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “۔ اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، اگر توحید کو عبادت میں تسلیم کرلیا جائے تو پھر باقی باتوں میں بھی اسے مان لیا جائے گا جو شخص عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کرے گا ، وہ شرک کی جملہ اقسام سے محفوظ رہے گا جن کا تذکرہ اللہ نے تعالیٰ نے سورة انعام میں فرمایا ہے ، اللہ تعالیٰ کو شرک ہرگز پسند نہیں اس لیے اللہ نے پہلا اصول یہی بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کیا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے ، سورة بینہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین “۔ اور ان کو تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت کو صرف اسی کے لیے خاص اسی کے لیے خاص کرنے والے ہوں ، اسی کی غلامی اختیار کریں ، یہ اٹل اصول ہے جو تمام اقوام وملل میں یکساں رہا ہے ، صابی قوموں کے لیے بھی یہی قانون تھا اور اب حنیفی اقوام بھی اسی قانون کی پابند ہیں ، جب یہ اصول تمام اقوام عالم کے لیے ہے تو پھر یہود ونصاری اس سے کیوں بدکتے ہیں انہیں بھی توحید فی العبادت کو بلا چون و چراں تسلیم کرلینا چاہیے ، قرآن پاک کی اکثر سورتوں میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ مستحق عبادت صرف اللہ کی ذات ہے کیونکہ الوہیت کی صفات اس کے سوا کسی دوسری ذات میں نہیں پائی جاتیں ، اسی لیے ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں اقرار کرتے ہیں کہ اے پیغمبر ! ﷺ (آیت) ” ایاک نعبد وایاک نستعین “۔ ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ، جب خالق ، مالک ، پروردگار ، علیم کل ، مختار مطلق نافع ، ضار اور مافوق الاسباب متصرف اللہ اللہ کے سوا کوئی نہیں تو پھر عبادت کے لائق بھی صرف وہی ذات ہے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں خالقیت الوہیت اور تصرف کی صفات کا ذکر کرنے کے بعد الوہیت کا مسئلہ سمجھایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا ، ایسا کرنا بغاوت ، سرکشی ظلم اور کفر ہے ۔ عبادت انتہائی درجے کی تعظیم کو کہا جاتا ہے جو اس اعتقاد پر مبنی ہو کہ جس ذات کی تعظیم کر رہا ہوں وہ نفع ونقصان کی مالک ہے اور اس کے پاس تصرف ہے ، یہ تعظیم رکوع و سجود کی شکل میں ہوتی ہے یا نذر ونیاز کی صورت میں یا محض مافوق الاسباب پکارنے کی صورت میں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے (آیت) ” فلا تدعوا مع اللہ احد “۔ (الجن) اللہ کے سوا کسی کو (مافوق الاسباب) نہ پکارو ، (آیت) ” فادعوا اللہ “ صرف اللہ ہی کو پکارا ، سورة النمل میں ہے (آیت) ” امن یجیب المضطراذا دعاہ “۔ کون ہے جو مضطرب کی دعا کو سنتا ہے (آیت) ” ء الہ مع اللہ “۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الہ ہے ، غرضیکہ اللہ نے اسلامی ریاست کے منشور کی پہلی شق یہی بیان فرمائی کہ عبادت صرف اللہ کی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت مختصہ میں کسی کو شریک نہ بناؤ ، یہود ونصاری حلت و حرمت کے معاملے میں شرک میں مبتلا ہوئے ، انہوں نے اپنی طرف سے بعض چیزوں کو حلال اور بعض کو حرام ٹھہرا لیا حالانکہ یہ منصب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کا ہے مگر انہوں نے یہ منصب انسانوں کو سونپ دیا الغرض ! اللہ نے پہلی بات یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے ۔ (2) (والدین سے حسن سلوک) توحید فی العبادت کے بعد اللہ نے دوسرا اصول یہ بیان فرمایا ہے ، (آیت) ” وبالوالدین احسانا “ اور اپنے والدین کے ساتھ احسان کرو ، اس میں فعل محذوف ہے اور دراصل پورا جملہ یوں ہے (آیت) ” واحسنوا بالوالدین احسانا “۔ یعنی احسان کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ، انسان کو اولین قرب والدین سے ہوتا ہے ، ان کی گود میں پرورش پاتا ہے وہی اس کی تربیت کرتے ہیں ، لہذا انسانی معاشرے میں حقوق کا سلسلہ والدین سے شروع ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے یہ قانون بنی اسرائیل سمیت تمام شرائع میں مشترک رہا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، اور والدین کے ساتھ احسان کرو ، سورة بقرہ میں بھی یہی الفاظ آتے ہیں کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو (آیت) ” وبالوالدین احسانا “۔ اور والدین کے ساتھ احسان کرو ، احسان کا مطلب یہ ہے کہ قولی ، فعلی کسی طریقے سے بھی ایذاء نہ پہنچائی جائے کہ یہ حرام ہے ، اگر والدین محتاج ہیں تو ان کی مالی معاونت کی جائے اگر محتاج نہیں تو ان کا ادب واحترام اور دیگر خدمت انجام دی جائے کسی جائز کام میں ان کی مخالفت نہ کی جائے ، آگے اللہ تعالیٰ نے بعض حدود وقیود بھی بیان فرمائے ہیں کہ اگر والدین کفر ، شرک یا بدعت پر لگانا چاہیں ، یا شریعت کے خلاف کسی کام کا حکمدیں تو ان کی بات نہ مانیں ، (آیت) ” وصاحبھما فی الدنیا معروفا “۔ (لقمان) البتہ دنیا میں رہ کر ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ۔ والدین سے نیک سلوک کرنے کے سلسلے میں ان کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء ؓ کی والدہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں مدینہ منورہ آئیں ، اس وقت حضرت صدیق ؓ اسے طلاق دے چکے تھے اور وہ شرک پر ہی قائم تھی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ میری مال آئی ہے اور وہ مشرکہ ہے تو کیا اس حالت میں میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا ” صلی امک “ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو اس کی خدمت تواضع کرو ، کپڑے دو ، کرائے کے پیسے دو وغیرہ وغیرہ مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے مشرک والدین کے ساتھ بھی نیک سلوک کرنے کا حکم ہے ۔ فرمایا (آیت) ” اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلھما “۔ اگر پہنچ جائیں تمہارے سامنے وہ بڑھاپے کو ایک یا دونوں (آیت) ” فلا تقل لھما اف “۔ تو انکو اف تک بھی نہ کہو ، ہماری زبان میں اسے لفظ ہوں پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے ، یہ بھی ادنی درجے کا لفظ ہے اور ا سے بےادبی کا پہلو نکلتا ہے ، لہذا اتنا بھی نہ کہو (آیت) ” ولا تنھر ھما “ اور ان دونوں یعنی والدین کو ڈانٹو بھی نہ ان سے گستاخی کی کوئی بات نہ کرو بلکہ (آیت) ” وقل لھما قولا کریما “۔ ان کے ساتھ نہایت ہی ادب سے بات کرو ، اگر والدین غصے میں بھی ہوں ، ناراض ہوں ، جب بھی ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو ہمارے ملک میں بعض بدبخت ایسے بھی ہیں جو والدین کا گالیاں دینے کے علاوہ مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کرتے بعض والدین کو قتل بھی کردیتے ہیں ایک شخص نے اپنی سوتلی ماں کو گلوشاہ کے میلے میں آٹھ سو روپے میں بیچ ڈالا بڑے بڑے خاندانوں کی عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ بیٹا لندن سے پڑھ کر آیا ہے تو بیوی کی بات ہی چلتی ہے ، ہمیں پوچھتا ہی نہیں حتی کہ کھانے پینے تک کے لیے نہیں پوچھتا بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے والدین کو گھر سے نکال دیا بعض نے صرف زمین خاطر باپ کو قتل کردیا ، باپ نے دوسری بیوی کی تو بیٹا ناراض ہوگیا کہ اب جائداد میں اور بھی حصے دار بن جائیں گے ، حالانکہ شریعت نے تو نکاح ثانی کی ترغیب دی ہے جب کہ آدمی خرچہ اٹھا سکتا ہو مگر اولاد کی ناہنجاری ہے جو والدین کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) کی والدہ آخر تک سکھ مت پر رہیں آپ دیوبند سے فارغ ہو کر آئے تو ماں کو اپنا پاس بلا لیا ان کی پوری پوری خدمت کرتے ناراض ہو بھی جاتی تو خدمت گزاری میں فرق نہ آتا اگر ماں آپ کو جوتے بھی مارتی تو آپ اف نہ کرتے یہ اسلامی تعلیمات کی برکات ہیں ، جب ماں دین پور میں فوت ہوئی تو مولانا اس کابل میں تھے ، ایک دفعہ ماں نے کہا کہ میں نے دان میں گائے دینی ہے تو نے اسے گائے بھی خرید کردی تاکہ وہ اپنی رسم پوری کرلے غیر مسلم ہونے کے باوجود آپ نے ماں کی اتنی خدمت کی یہ سعادت مند لوگوں کی نشانی ہوتی ہے اسی لیے فرمایا کہ ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تو ان کا زیادہ خیال رکھو ، بعض اوقات طبیعت میں چڑ چڑا پن آجاتا ہے اس کو برداشت کرتے ہوئے ان سے نیک سلوک کرو۔ (والدین کے لیے دعا) والدین کے متعلق مزید فرمایا (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ “۔ اور ان کے سامنے عاجزی کا بازو جھکا دو نیاز مندی سے گویا ماں باپ کے ادب واحترام کو ہر طریقے سے ملحوظ رکھو ، اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے لیے بارگاہ رب العزت میں دعا بھی کرو (آیت) ” وقل رب ارحمھما کما ربینی صغیرا “۔ اے پیغمبر ! ﷺ میرے ماں باپ پر اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی اور مجھ پر مہربانی کرتے رہے ، اولاد کے لیے والدین کی شفقت میں ماں کا حق فائق ہے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ کسی نے دریافت کیا حضور ! میں والدین میں سے کس کے ساتھ نیک سلوک کروں ، تو آپ نے فرمایا ، ماں کے ساتھ ، اس شخص نے دوبارہ اور سہ بارہ دریافت کیا تو حضور ﷺ نے یہی جواب دیا کہ ماں کے ساتھ پھر چوتھی دفعہ فرمایا ، باپ کے ساتھ ، باپ کے مقابلے میں ماں زیادہ عاجز اور زیادہ شفیق ہوتی ہے ، وہ بچے کی پرورش میں زیادہ تکلیف اٹھاتی ہے اس لیے حسن سلوک میں اس کو اولیت دی گئی ہے ، اس کے بعد دوسرے قرابتداروں کی باری آتی ہے کہ ان سے بھی حسن سلوک کیا جائے ۔ (رجوع الی اللہ) (آیت) ” وربکم اعلم بما فی نفوسکم “۔ اور تمہارا رب خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے نفسوں میں ہے تمہاری نیکی اور صلاحیت تمہارا اخلاص اور نفاق ، تمہاری فرمانبرداری اور نافرمانی ، اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان تکونوا صالحین “۔ یعنی اگر تم صلاحیت اور نیکی کے حامل ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں شامل حال ہوں گی (آیت) ” فانہ کان للاوابین غفورا “۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ رجوع رکھنے والوں کے لیے بہت بخشنے والا ہے ، اللہ کی طرف رجوع کرنا انبیاء کی لغات میں سے ہے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا (آیت) ” انہ اوب “۔ (یس) حضرت ایوب (علیہ السلام) کے متعلق بھی فرمایا (آیت) ” نعم العبد انہ اواب “۔ وہ بہت اچھے بندے اور اللہ کی طرف رجوع رکھنے والے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) ” ان ابرھیم لحلیم اواہ منیب “۔ (ہود) بیشک آپ بردبار نرم دل اور رجوع الی اللہ والے تھے۔ (صلوۃ الاوابین) حضور ﷺ نے بعض لوگوں کو چاشت کے وقت نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا ” تلک صلوۃ الاوابین حین تومض الفصال “۔ یہ رجوع الی اللہ رکھنے والوں کی نماز ہے اور یہ اس وقت ادا کی جاتی ہے جب اونٹوں کے بچوں کے پاؤں ریت میں گرم ہونے لگتے ہیں یعنی اس نماز کا وقت کا وقت نو ، دس ، بجے دن ہے ، اس نماز کی کم از کم دو اور زیادہ آٹھ یا بارہ رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہیں ، حضور ﷺ (مسلم ص 249 ، ج 1) اکثر چار رکعت ادا فرماتے تھے ۔ فتح مکہ (2) (مسلم ص 249 ج 1 (فیاض) والے دن آپ نے آٹھ رکعت ادا فرمائیں ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ جو لوگ مغرب کے بعد نماز پڑھتے ہیں فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں ، یہ بھی اوابین کی نماز ہے مگر حدیث میں یہ خطاب چاشت کی نماز کو دیا گیا ہے ، بہرحال اللہ نے یہ دوسرا اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اجتماعی منشور کا پہلا اصول توحید فی العبادت تھا ، اب دوسرا اصول والدین سے حسن سلوک ٹھہرا۔
Top